بارے غم فراق اٹھاتا رہا ہوں میں

بارے غم فراق اٹھاتا رہا ہوں میں
شمع جلا جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں


سارے جہاں کو دل سے بھلاتا رہا ہوں میں
بس یاد تیری دل میں بساتا رہا ہوں میں


دیوار و در کے دل کے نظر کے خیال کے
ہر آئنے سے خود کو چھپاتا رہا ہوں میں


نظریں اٹھا کے دیکھ بھی لے اک نظر مجھے
اے دوست تیری بزم میں آتا رہا ہوں میں


بڑھتا رہے شباب یہ ہر روز ہر گھڑی
آئینہ بن کے تجھ کو سجاتا رہا ہوں میں


اس شہر بے وفا میں جفاؤں کے بعد بھی
ارپتؔ وفا کے پھول کھلاتا رہا ہوں میں