Zulfiqar Aadil

ذوالفقار عادل

نئی نسل کے نمائندہ شاعر اور افسانہ نگار۔

Represents the new generation of poets and story writers.

ذوالفقار عادل کی غزل

    یہ میز یہ کتاب یہ دیوار اور میں

    یہ میز یہ کتاب یہ دیوار اور میں کھڑکی میں زرد پھولوں کا انبار اور میں ہر شام اس خیال سے ہوتا ہے جی اداس پنچھی تو جا رہے ہیں افق پار اور میں اک عمر اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہے اک دوسرے کے خوف سے دیوار اور میں سرکار ہر درخت سے بنتے نہیں ہیں تخت قربان آپ پر مرے اوزار اور میں لے کر تو ...

    مزید پڑھیے

    ہوئی آغاز پھولوں کی کہانی

    ہوئی آغاز پھولوں کی کہانی وہ پہلا دل وہ پہلی خوش گمانی اداسی کی مہک آتی ہے مجھ سے مری تنہائی ہے اتنی پرانی ہمیں دونوں کنارے دیکھنے میں توجہ چاہتی ہے یہ روانی یہ بارش اور یہ پامال سبزہ نمو پاتی ہوئی اک رائیگانی محبت ہو گئی اک روز عادلؔ ہمارا مشغلہ تھا باغبانی

    مزید پڑھیے

    صحراؤں کے دوست تھے ہم خود آرائی سے ختم ہوئے

    صحراؤں کے دوست تھے ہم خود آرائی سے ختم ہوئے اوپر اوپر خاک اڑائی گہرائی سے ختم ہوئے ویرانہ بھی ہم تھے خاموشی بھی ہم تھے دل بھی ہم یکسوئی سے عشق کیا اور یکتائی سے ختم ہوئے دریا دلدل پربت جنگل اندر تک آ پہنچے تھے اسی بستی کے رہنے والے تنہائی سے ختم ہوئے کتنی آنکھیں تھیں جو اپنی ...

    مزید پڑھیے

    شکر کیا ہے ان پیڑوں نے صبر کی عادت ڈالی ہے

    شکر کیا ہے ان پیڑوں نے صبر کی عادت ڈالی ہے اس منظر سے دیکھو بارش ہونے والی ہے سوچا یہ تھا وقت ملا تو ٹوٹی چیزیں جوڑیں گے اب کونے میں ڈھیر لگا ہے باقی کمرا خالی ہے بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ہے آتش دان میں کیا کیا کچھ موسم اتنا سرد نہیں تھا جتنی آگ جلا لی ہے اپنی مرضی سے سب چیزیں ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں یوں ہی نہ سر آب و گل بنایا جائے

    ہمیں یوں ہی نہ سر آب و گل بنایا جائے ہمارے خواب دئے جائیں دل بنایا جائے دکھائی دیتا ہے تصویر جاں میں دونوں طرف ہمارا زخم ذرا مندمل بنایا جائے اگر جلایا گیا ہے کہیں دیے سے دیا تو کیا عجب کہ کبھی دل سے دل بنایا جائے شدید تر ہے تسلسل میں ہجر کا موسم کبھی ملو کہ اسے معتدل بنایا ...

    مزید پڑھیے

    سو لینے دو اپنا اپنا کام کرو چپ ہو جاؤ

    سو لینے دو اپنا اپنا کام کرو چپ ہو جاؤ دروازو کچھ وقت گزارو دیوارو چپ ہو جاؤ کس کشتی کی عمر ہے کتنی ملاحوں سے پوچھنے دو تم سے بھی پوچھیں گے اک دن دریاؤ چپ ہو جاؤ دیکھ لیا نا آخر مٹی مٹی میں مل جاتی ہے خاموشی سے اپنا اپنا حصہ لو چپ ہو جاؤ اس ویران سرا کی مالک ایک پرانی ...

    مزید پڑھیے

    جانے ہم یہ کن گلیوں میں خاک اڑا کر آ جاتے ہیں

    جانے ہم یہ کن گلیوں میں خاک اڑا کر آ جاتے ہیں عشق تو وہ ہے جس میں ناموجود میسر آ جاتے ہیں جانے کیا باتیں کرتی ہیں دن بھر آپس میں دیواریں دروازے پر قفل لگا کر ہم تو دفتر آ جاتے ہیں کام مکمل کرنے سے بھی شام مکمل کب ہوتی ہے ایک پرندہ رہ جاتا ہے باقی سب گھر آ جاتے ہیں اپنے دل میں گیند ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3