Zulfiqar Aadil

ذوالفقار عادل

نئی نسل کے نمائندہ شاعر اور افسانہ نگار۔

Represents the new generation of poets and story writers.

ذوالفقار عادل کی غزل

    سنتے ہیں جو ہم دشت میں پانی کی کہانی

    سنتے ہیں جو ہم دشت میں پانی کی کہانی آزار کا آزار کہانی کی کہانی دریا تو کہیں بعد میں دریافت ہوئے ہیں آغاز ہوئی دل سے روانی کی کہانی سنتا ہو اگر کوئی تو عادلؔ وہ در و بام کہتے ہیں مری نقل مکانی کی کہانی

    مزید پڑھیے

    بڑی مشکل کہانی تھی مگر انجام سادہ ہے

    بڑی مشکل کہانی تھی مگر انجام سادہ ہے کہ اب اس شخص کا ہم سے بچھڑنے کا ارادہ ہے اور اس کے بعد اک ایسے ہی لمحے تک ہے خاموشی ہمیں در پیش پھر سے لمحۂ تجدید وعدہ ہے سنو رستے میں اک جلتا ہوا صحرا بھی آئے گا کہو کب تک ہمارے ساتھ چلنے کا ارادہ ہے ہمیں آسانیوں سے پیار تھا اور لوگ کہتے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ خاک سے ہے کام کچھ اس خاک داں سے ہے

    کچھ خاک سے ہے کام کچھ اس خاک داں سے ہے جانا ہے دور اور گزرنا یہاں سے ہے دل اپنی رائیگانی سے زندہ ہے اب تلک آباد یہ جہاں بھی غبار جہاں سے ہے بس خاک پڑ گئی ہے بدن پر زمین کی ورنہ مشابہت تو مری آسماں سے ہے دل بھی یہی ہے وقت بھی منظر بھی نیند بھی جانا کہاں ہے خواب میں جانا کہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    سفر پہ جیسے کوئی گھر سے ہو کے جاتا ہے

    سفر پہ جیسے کوئی گھر سے ہو کے جاتا ہے ہر آبلہ مرے اندر سے ہو کے جاتا ہے جہاں سے چاہے گزر جائے موج امید یہ کیا کہ میرے برابر سے ہو کے جاتا ہے جنوں کا پوچھئے ہم سے کہ شہر کا ہر چاک اسی دکان رفوگر سے ہو کے جاتا ہے میں روز ایک زمانے کی سیر کرتا ہوں یہ راستہ مرے بستر سے ہو کے جاتا ...

    مزید پڑھیے

    وہ بوڑھا اک خواب ہے اور اک خواب میں آتا رہتا ہے

    وہ بوڑھا اک خواب ہے اور اک خواب میں آتا رہتا ہے اس کے سر پر ان دیکھا پنچھی منڈلاتا رہتا ہے ناٹک کے کرداروں میں کچھ سچے ہیں کچھ جھوٹے ہیں پردے کے پیچھے کوئی ان کو سمجھاتا رہتا ہے بستی میں جب چاک گریباں گریہ کرتے پھرتے ہیں اس موسم میں ایک رفو گر ہنستا گاتا رہتا ہے ہر کردار کے ...

    مزید پڑھیے

    میں جہاں تھا وہیں رہ گیا معذرت

    میں جہاں تھا وہیں رہ گیا معذرت اے زمیں معذرت اے خدا معذرت کچھ بتاتے ہوئے کچھ چھپاتے ہوئے میں ہنسا معذرت رو دیا معذرت خود تمہاری جگہ جا کے دیکھا ہے اور خود سے کی ہے تمہاری جگہ معذرت جو ہوا جانے کیسے ہوا کیا خبر جو کیا وہ نہیں ہو سکا معذرت میں کہ خود کو بچانے کی کوشش میں تھا ایک ...

    مزید پڑھیے

    یوں جو پلکوں کو ملا کر نہیں دیکھا جاتا

    یوں جو پلکوں کو ملا کر نہیں دیکھا جاتا ہر طرف ایک ہی منظر نہیں دیکھا جاتا کام اتنے ہیں بیابانوں کے ویرانوں کے شام ہو جاتی ہے اور گھر نہیں دیکھا جاتا جھانک لیتے ہیں گریباں میں یہی ممکن ہے ایسی پستی ہے کہ اوپر نہیں دیکھا جاتا جس کو خوابوں کو ضرورت ہو اٹھا کر لے جائے ہم سے اب اور ...

    مزید پڑھیے

    دل میں رہتا ہے کوئی دل ہی کی خاطر خاموش

    دل میں رہتا ہے کوئی دل ہی کی خاطر خاموش جیسے تصویر میں بیٹھا ہو مصور خاموش دل کی خاموشی سے گھبرا کے اٹھاتا ہوں نظر ایک آواز سی آتی ہے مسافر خاموش اس تعارف کا نہ آغاز نہ انجام کوئی کر دیا ایک خموشی نے مجھے پھر خاموش کچھ نہ سن کر بھی تو کہنا ہے کہ ہاں سنتے ہیں کچھ نہ کہہ کر بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    نکلا ہوں شہر خواب سے ایسے عجیب حال میں

    نکلا ہوں شہر خواب سے ایسے عجیب حال میں غرب مرے جنوب میں شرق مرے شمال میں کوئی کہیں سے آئے اور مجھ سے کہے کہ زندگی تیری تلاش میں ہے دوست بیٹھا ہے کس خیال میں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں سب میری جگہ مرا سبب کوئی ہزار میل میں کوئی ہزار سال میں لفظوں کے اختصار سے کم تو ہوئی سزا مری پہلے ...

    مزید پڑھیے

    ہم جانا چاہتے تھے جدھر بھی نہیں گئے

    ہم جانا چاہتے تھے جدھر بھی نہیں گئے اور انتہا تو یہ ہے کہ گھر بھی نہیں گئے وہ خواب جانے کیسے خرابے میں گم ہوئے اس پار بھی نہیں ہیں ادھر بھی نہیں گئے صاحب تمہیں خبر ہی کہاں تھی کہ ہم بھی ہیں ویسے تو اب بھی ہیں کوئی مر بھی نہیں گئے بارش ہوئی تو ہے مگر اتنی کہ یہ ظروف خالی نہیں رہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3