وہ بوڑھا اک خواب ہے اور اک خواب میں آتا رہتا ہے

وہ بوڑھا اک خواب ہے اور اک خواب میں آتا رہتا ہے
اس کے سر پر ان دیکھا پنچھی منڈلاتا رہتا ہے


ناٹک کے کرداروں میں کچھ سچے ہیں کچھ جھوٹے ہیں
پردے کے پیچھے کوئی ان کو سمجھاتا رہتا ہے


بستی میں جب چاک گریباں گریہ کرتے پھرتے ہیں
اس موسم میں ایک رفو گر ہنستا گاتا رہتا ہے


ہر کردار کے پیچھے پیچھے چل دیتا ہے قصہ گو
یوں ہی بیٹھے بیٹھے اپنا کام بڑھاتا رہتا ہے


اس دن بھی جب بستی میں تلواریں کم پڑ جاتی ہیں
ایک مدبر آہن گر زنجیر بناتا رہتا ہے


آوازوں کی بھیڑ میں اک خاموش مسافر دھیرے سے
نامانوس دھنوں میں کوئی ساز بجاتا رہتا ہے


دیکھنے والی آنکھیں ہیں اور دیکھ نہیں پاتیں کچھ بھی
اس منظر میں جانے کیا کچھ آتا جاتا رہتا ہے


اس دریا کی تہہ میں عادلؔ ایک پرانی کشتی ہے
اک گرداب مسلسل اس کا بوجھ بڑھاتا رہتا ہے