Zohheb Farooqui Afrang

زہیب فاروقی افرنگ

زہیب فاروقی افرنگ کی غزل

    بے لوث و روادار تمہاری ہی طرح ہو

    بے لوث و روادار تمہاری ہی طرح ہو دشمن بھی مرے یار تمہاری ہی طرح ہو میں ہاتھ سے پھر زہر بھی کھا لوں گا تمہارے گر وہ بھی اثر دار تمہاری ہی طرح ہو جاں ہنس کے لٹا دوں گا مگر مجھ میں جو اترے خواہش ہے وہ تلوار تمہاری ہی طرح ہو لو پھول مری قبر کی خاطر تو رہے دھیان ہر پھول کی مہکار ...

    مزید پڑھیے

    سبھی دل شاد منظر چھوڑ آیا

    سبھی دل شاد منظر چھوڑ آیا سفر میں ہوں میں گھر ور چھوڑ آیا تعلق تشنگی سے ہے پرانا یہ سوچا اور سمندر چھوڑ آیا مری قربانیاں کیا پوچھتے ہو پرندہ ہوں اور امبر چھوڑ آیا بھٹکنے کا تھا ایسا شوق مجھ کو کہ میں دامان رہبر چھوڑ آیا جہاں سے زندگی کی ابتدا کی اسی جا موت کا ڈر چھوڑ آیا مرمت ...

    مزید پڑھیے

    تیغ شمشیر یا خنجر کی ضرورت کیا ہے

    تیغ شمشیر یا خنجر کی ضرورت کیا ہے جنگ جب خود سے ہو لشکر کی ضرورت کیا ہے جس نے سمجھا مجھے باہر سے ہی سمجھا صاحب کس کو معلوم کہ اندر کی ضرورت کیا ہے گر ترا قرب میسر ہو تو اے جان ادا سرد راتوں میں بھی بستر کی ضرورت کیا ہے بے وفائی کا تری زخم کوئی کم تو نہیں چوٹ دینی ہو تو پتھر کی ...

    مزید پڑھیے

    مرض لگتا ہے جو مجھ کو اسے میری دوا سمجھے

    مرض لگتا ہے جو مجھ کو اسے میری دوا سمجھے دوانہ ہو گیا ہوں میں دوانوں کو وہ کیا سمجھے میں اپنے آپ میں خوش ہوں مجھے اس سے غرض کیا ہے کہ یہ مجھ کو بھلا سمجھے کہ وہ مجھ کو برا سمجھے بچھڑنے کا وہ ہم سے نام تک لینے سے گھبرائے جسے ہم ہجر کہتے ہیں اسے وہ بد دعا سمجھے گناہوں سے بچا جائے ...

    مزید پڑھیے

    اکیلا ہوں مگر آباد ہوں میں

    اکیلا ہوں مگر آباد ہوں میں قفس میں ہی سہی آزاد ہوں میں مجھے دل میں لیے وہ گھومتا ہے کہ اس کی ان کہی فریاد ہوں میں یہ دنیا مقتلوں سے کم کہاں ہے سبھی کے قتل سے ناشاد ہوں میں مرے سینے پہ کس کے نقش پا ہیں یہ کس کی ذات سے برباد ہوں میں زمانہ شوق سے سنتا ہے مجھ کو زمانے سے جڑی روداد ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2