دشت کا لمبا سفر تھا دور تک سایہ نہ تھا

دشت کا لمبا سفر تھا دور تک سایہ نہ تھا
لوٹ جانے کے سوا آگے کوئی رستہ نہ تھا


آندھیاں بے جان شاخوں سے الجھتیں بھی تو کیا
پیڑ کے ننگے بدن پر ایک بھی پتہ نہ تھا


کھل کے دونوں لڑ رہے تھے اک ذرا سی بات پر
روکنے کے واسطے گھر میں کوئی بوڑھا نہ تھا


سو گیا آنگن میں میں پھر چپ کی چادر اوڑھ کر
کھٹکھٹاتا کیا مرے کمرے میں دروازہ نہ تھا


بولنے لگتے ہیں جھینگر کان کی دہلیز پر
جسم میں میرے کبھی بھی اتنا سناٹا نہ تھا