زعیم رشید کی نظم

    بے آباد گھروں کا نوحہ

    بے آباد گھروں میں ایسا ہوتا ہے دور کے دیس کو جانے والا کولہو کا ایک بیل بنا ہے ہر پہلی کو ہرکارے کے ہاتھ میں ایک منی آرڈر کا رستہ تکتی باپ کی آنکھیں خوشی خوشی تسبیح کے دانے جلدی جلدی پھیر رہی ہیں بہنیں ڈالر کے تعویذ بنا کر گلے میں ڈالے گھوم رہی ہیں بھائی اپنے یاروں میں پردیس کے ...

    مزید پڑھیے

    تخلیق

    ہوا کو جانے یہ کیا ہوا ہے وہ سر سے پاؤں تک آج کس سبز کپکپاہٹ میں مبتلا ہے وہ یوں درختوں میں چھپ رہی ہے کہ جیسے تخلیق کے عمل سے گزر رہی ہو ہوا کی سانسیں اکھڑ کے پھر سے سنبھل رہی ہیں وجود کیف و سرور اس کا عجیب مستی کے ساتھ مجھ سے گزر رہا ہے ہوا پہ مصرعہ اتر رہا ہے ہوا پہ مصرعہ اتر رہا ...

    مزید پڑھیے