تخلیق
ہوا کو جانے یہ کیا ہوا ہے
وہ سر سے پاؤں تک آج کس سبز کپکپاہٹ میں مبتلا ہے
وہ یوں درختوں میں چھپ رہی ہے کہ جیسے تخلیق کے عمل سے گزر رہی ہو
ہوا کی سانسیں اکھڑ کے پھر سے سنبھل رہی ہیں
وجود کیف و سرور اس کا عجیب مستی کے ساتھ مجھ سے گزر رہا ہے
ہوا پہ مصرعہ اتر رہا ہے
ہوا پہ مصرعہ اتر رہا ہے