بے آباد گھروں کا نوحہ
بے آباد گھروں میں ایسا ہوتا ہے
دور کے دیس کو جانے والا کولہو کا ایک بیل بنا ہے
ہر پہلی کو ہرکارے کے ہاتھ میں ایک منی آرڈر کا رستہ تکتی
باپ کی آنکھیں خوشی خوشی تسبیح کے دانے جلدی جلدی پھیر رہی ہیں
بہنیں ڈالر کے تعویذ بنا کر گلے میں ڈالے گھوم رہی ہیں
بھائی اپنے یاروں میں پردیس کے قصے رنگ برنگی آوازوں میں ہانک رہے ہیں
خوش فہمی کی ماری بیوی اپنی جوانی عمر کے کلینڈر میں رکھ کر کاموں میں لگ جاتی ہے
ماں دیوار پہ بیٹھے کوے کی آواز کو سن کر خوش ہوتی ہے
دور کے دیس میں
کولہو کا وہ بیل بیچارہ
رات کو تھک کر سو جاتا ہے
بے آباد گھروں میں اکثر
ایسا ہو جاتا ہے