زعیم رشید کی غزل

    یہ بات اب کے اسے بتانا نہیں پڑے گی

    یہ بات اب کے اسے بتانا نہیں پڑے گی غزل کو ہرگز غزل سنانا نہیں پڑے گی جو وہ ملا تو میں خرچ کر دوں گا ایک پل میں بدن کی خوشبو مجھے بچانا نہیں پڑے گی تجھے بیاہوں تو دو قبیلے قریب ہوں گے کسی کو بندوق بھی اٹھانا نہیں پڑے گی میں اپنے لہجے کا ہاتھ تھامے نکل پڑا ہوں کسی کو آواز بھی لگانا ...

    مزید پڑھیے

    دیار شوق میں آئے تھے ایک خواب کے ساتھ

    دیار شوق میں آئے تھے ایک خواب کے ساتھ گزر رہی ہے مسلسل کسی عذاب کے ساتھ ہم اہل درد پکارے گئے صحیفوں میں ہم اہل عشق اتارے گئے کتاب کے ساتھ پھر ایک شام پذیرائی چشم تر کی ہوئی پھر ایک شام گزاری گئی جناب کے ساتھ ہمیں یہ خوف اندھیرے نگل نہ جائیں کہیں سو ہم نے جسم کو ڈھانپا ہے آفتاب ...

    مزید پڑھیے

    جنبش ارض و سماوات میں آئے ہوئے ہیں

    جنبش ارض و سماوات میں آئے ہوئے ہیں ان دنوں گردش حالات میں آئے ہوئے ہیں اب جو تو چاہے جہاں چاہے ہمیں لے جائے کیا کریں ہم جو ترے ہاتھ میں آئے ہوئے ہیں میں اکیلا ہی نہیں آیا تجھے دیکھنے کو کچھ ستارے بھی مرے ساتھ میں آئے ہوئے ہیں اے مہ چار دہم تیری خوشی کی خاطر اک سیہ رات کی بہتات ...

    مزید پڑھیے