Yasmeen Habeeb

یاسمین حبیب

یاسمین حبیب کی غزل

    وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا

    وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا ہوئی ہے رات وہ بارش گماں نہ تھا جس کا ہوائیں خود اسے ساحل پہ لا کے چھوڑ گئیں وہ ایک ناؤ کوئی بادباں نہ تھا جس کا کشید کرتا رہا ہجرتوں سے درد کی مے کوئی تو تھا کہ کہیں ہم زباں نہ تھا جس کا اسی کے دم سے تھی رونق تمام بستی میں کہ خندہ لب تھا مگر ...

    مزید پڑھیے

    اک دل میں تھا اک سامنے دریا اسے کہنا

    اک دل میں تھا اک سامنے دریا اسے کہنا ممکن تھا کہاں پار اترنا اسے کہنا ہجراں کے سمندر میں ہیولیٰ تھا کسی کا امکاں کے بھنور سے کوئی ابھرا اسے کہنا اک حرف کی کرچی مرے سینے میں چھپی تھی پہروں تھا کوئی ٹوٹ کے رویا اسے کہنا مدت ہوئی خورشید گہن سے نہیں نکلا ایسا کہیں تارا کوئی ٹوٹا ...

    مزید پڑھیے

    جنہیں نگاہ اٹھانے میں بھی زمانے لگے

    جنہیں نگاہ اٹھانے میں بھی زمانے لگے وہ جا بجا مری تصویر کیوں سجانے لگے ہوا ہے طے وہ سفر ایک جست میں مجھ سے کہ جس پہ پاؤں بھی دھرتے تجھے زمانے لگے ترے بدن کی طبیعت سے واقفیت ہے میں جان جاؤں اگر مجھ سے تو چھپانے لگے خدا کرے کہ کہیں تجھ کو تیری فطرت سا کوئی ملے کبھی پھر میری یاد ...

    مزید پڑھیے

    یہ کمرہ اور یہ گرد و غبار اس کا ہے

    یہ کمرہ اور یہ گرد و غبار اس کا ہے وہ جس نے آنا نہیں انتظار اس کا ہے رکی ہوں زخم کے رقبے میں اپنی مرضی سے یہ جانتی ہوں کہ قرب و جوار اس کا ہے کسی خسارے کے سودے میں ہاتھ آیا تھا سو ایک قیمتی شے میں شمار اس کا ہے فقط فراق تو اتنا نشہ نہیں رکھتا میں لڑکھڑائی ہوں جس سے خمار اس کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2