جنہیں نگاہ اٹھانے میں بھی زمانے لگے
جنہیں نگاہ اٹھانے میں بھی زمانے لگے
وہ جا بجا مری تصویر کیوں سجانے لگے
ہوا ہے طے وہ سفر ایک جست میں مجھ سے
کہ جس پہ پاؤں بھی دھرتے تجھے زمانے لگے
ترے بدن کی طبیعت سے واقفیت ہے
میں جان جاؤں اگر مجھ سے تو چھپانے لگے
خدا کرے کہ کہیں تجھ کو تیری فطرت سا
کوئی ملے کبھی پھر میری یاد آنے لگے
یہ کیسا ہجر ہے جس پر گمان وصل کا ہو
تو میرے پاس رہے جب بھی اٹھ کے جانے لگے
یہ دل عجیب سا دل ہے اٹھا کے دیواریں
ترے خیال کے آتے ہی ان کو ڈھانے لگے
تو اپنی عمر کی محرومیاں مجھے دے دے
میں چاہتی ہوں تری روح مسکرانے لگے