Yasmeen Habeeb

یاسمین حبیب

یاسمین حبیب کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    ابھی گزرے دنوں کی کچھ صدائیں شور کرتی ہیں

    ابھی گزرے دنوں کی کچھ صدائیں شور کرتی ہیں دریچے بند رہنے دو، ہوائیں شور کرتی ہیں یہی تو فکر کے جلتے پروں پہ تازیانہ ہے کہ ہر تاریک کمرے میں دعائیں شور کرتی ہیں کہا نا تھا حصار اسم اعظم کھینچنے والے یہاں آسیب رہتے ہیں بلائیں شور کرتی ہیں ہمیں بھی تجربہ ہے بے گھری کا چھت نہ ہونے ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے

    تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے میں رنگ رنگ ہوں لیکن سنگھار باقی ہے ہوائیں تھم گئیں گرد و غبار بیٹھ گیا اک اپنی ذات کا بس انتشار باقی ہے تمام عمر پلایا ہے جس کو اپنا لہو اس ایک پھول پہ اب تک نکھار باقی ہے تمہارے نام کی خوشبو سے رچ گئی ہے فضا صدا کی گونج میں پیہم پکار باقی ہے جو ...

    مزید پڑھیے

    مرے جنوں کو ہے تجھ سے ثبات پھر ملنا

    مرے جنوں کو ہے تجھ سے ثبات پھر ملنا مری نظر کی حسیں کائنات پھر ملنا کبھی جو دن کے اجالے میں آ نہ پائے اگر تو شوق دید میں جاگے گی رات پھر ملنا بس ایک تو ہی بہانہ ہوا ہے جینے کا وگرنہ درد ہے ساری حیات پھر ملنا ہزار رنگ ہیں تیرے کہ مجھ سے لپٹے ہیں جلو میں لے کے دھنک کی برات پھر ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو اتار حرف میں جان غزل بنا مجھے

    مجھ کو اتار حرف میں جان غزل بنا مجھے میری ہی بات مجھ سے کر میرا کہا سنا مجھے رخش ابد خرام کی تھمتی نہیں ہیں بجلیاں صبح ازل نژاد سے کرنا ہے مشورہ مجھے لوح جہاں سے پیشتر لکھا تھا کیا نصیب میں کیسی تھی میری زندگی کچھ تو چلے پتہ مجھے کیسے ہوں خواب آنکھ میں کیسا خیال دل میں ہو خود ہی ...

    مزید پڑھیے

    کسی کشش کے کسی سلسلے کا ہونا تھا

    کسی کشش کے کسی سلسلے کا ہونا تھا ہمیں بھی آخرش اک دائرے کا ہونا تھا ابھی سے اچھا ہوا رات سو گئی ورنہ کبھی تو ختم سفر رت جگے کا ہونا تھا برہنہ تن بڑی گزری تھی زندگی اپنی لباس ہم کو ہی اک دوسرے کا ہونا تھا ہم اپنا دیدۂ بینا پہن کے نکلے تھے سڑک کے بیچ کسی حادثے کا ہونا تھا ہمارے ...

    مزید پڑھیے

تمام