Yasmeen Habeeb

یاسمین حبیب

یاسمین حبیب کی غزل

    ابھی گزرے دنوں کی کچھ صدائیں شور کرتی ہیں

    ابھی گزرے دنوں کی کچھ صدائیں شور کرتی ہیں دریچے بند رہنے دو، ہوائیں شور کرتی ہیں یہی تو فکر کے جلتے پروں پہ تازیانہ ہے کہ ہر تاریک کمرے میں دعائیں شور کرتی ہیں کہا نا تھا حصار اسم اعظم کھینچنے والے یہاں آسیب رہتے ہیں بلائیں شور کرتی ہیں ہمیں بھی تجربہ ہے بے گھری کا چھت نہ ہونے ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے

    تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے میں رنگ رنگ ہوں لیکن سنگھار باقی ہے ہوائیں تھم گئیں گرد و غبار بیٹھ گیا اک اپنی ذات کا بس انتشار باقی ہے تمام عمر پلایا ہے جس کو اپنا لہو اس ایک پھول پہ اب تک نکھار باقی ہے تمہارے نام کی خوشبو سے رچ گئی ہے فضا صدا کی گونج میں پیہم پکار باقی ہے جو ...

    مزید پڑھیے

    مرے جنوں کو ہے تجھ سے ثبات پھر ملنا

    مرے جنوں کو ہے تجھ سے ثبات پھر ملنا مری نظر کی حسیں کائنات پھر ملنا کبھی جو دن کے اجالے میں آ نہ پائے اگر تو شوق دید میں جاگے گی رات پھر ملنا بس ایک تو ہی بہانہ ہوا ہے جینے کا وگرنہ درد ہے ساری حیات پھر ملنا ہزار رنگ ہیں تیرے کہ مجھ سے لپٹے ہیں جلو میں لے کے دھنک کی برات پھر ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو اتار حرف میں جان غزل بنا مجھے

    مجھ کو اتار حرف میں جان غزل بنا مجھے میری ہی بات مجھ سے کر میرا کہا سنا مجھے رخش ابد خرام کی تھمتی نہیں ہیں بجلیاں صبح ازل نژاد سے کرنا ہے مشورہ مجھے لوح جہاں سے پیشتر لکھا تھا کیا نصیب میں کیسی تھی میری زندگی کچھ تو چلے پتہ مجھے کیسے ہوں خواب آنکھ میں کیسا خیال دل میں ہو خود ہی ...

    مزید پڑھیے

    کسی کشش کے کسی سلسلے کا ہونا تھا

    کسی کشش کے کسی سلسلے کا ہونا تھا ہمیں بھی آخرش اک دائرے کا ہونا تھا ابھی سے اچھا ہوا رات سو گئی ورنہ کبھی تو ختم سفر رت جگے کا ہونا تھا برہنہ تن بڑی گزری تھی زندگی اپنی لباس ہم کو ہی اک دوسرے کا ہونا تھا ہم اپنا دیدۂ بینا پہن کے نکلے تھے سڑک کے بیچ کسی حادثے کا ہونا تھا ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    لمس تشنہ لبی سے گزری ہے

    لمس تشنہ لبی سے گزری ہے رات کس جاں کنی سے گزری ہے اس مرصع نگار خانے میں آنکھ بے منظری سے گزری ہے ایک سایہ سا پھڑپھڑاتا ہے کوئی شے روشنی سے گزری ہے لوٹنے والے ساتھ ساتھ رہے زندگی سادگی سے گزری ہے کچھ دکھائی نہیں دیا شاید عمر اندھی گلی سے گزری ہے شام آتی تھی دن گزرنے پر کیا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    آتے رہتے ہیں فلک سے بھی اشارے کچھ نہ کچھ

    آتے رہتے ہیں فلک سے بھی اشارے کچھ نہ کچھ بات کر لیتے ہیں ہم سے چاند تارے کچھ نہ کچھ ایک کافر کی مسیحائی کے دست فیض سے مل رہے ہیں زخم کے دونوں کنارے کچھ نہ کچھ رنگ ہر دیمک زدہ تصویر میں بھرتے رہے اک تسلی کے لیے ہجراں کے مارے کچھ نہ کچھ اک پرانا خط کئی پھولوں کی سوکھی پتیاں اس بیاض ...

    مزید پڑھیے

    جو چلا گیا سو چلا گیا جو ہے پاس اس کا خیال رکھ

    جو چلا گیا سو چلا گیا جو ہے پاس اس کا خیال رکھ جو لٹا دیا اسے بھول جا جو بچا ہے اس کو سنبھال رکھ کبھی سر میں سودا سما کوئی کبھی ریگزار میں رقص کر کبھی زخم باندھ کے پاؤں میں کہیں سرخ سرخ دھمال رکھ جو چرائی ہے شب تار سے کئی رتجگوں کو گزار کے وہی کاجلوں کی لکیر ہے اپنی آنکھ میں ڈال ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے ساتھ کیا نسبت ہوئی تھی

    کسی کے ساتھ کیا نسبت ہوئی تھی میں اپنے آپ سے رخصت ہوئی تھی پلٹ کر پیچھے دیکھا تھا ذرا سا مجھے خود پر بڑی حیرت ہوئی تھی اچانک آ گئی تھی اپنے آگے اچانک بات کی جرأت ہوئی تھی خود اپنا ساتھ بھی چبھنے لگا تھا عجب تنہائی کی عادت ہوئی تھی مرے اندر بھنور اٹھنے لگے تھے سمندر سے بڑی وحشت ...

    مزید پڑھیے

    وقت بس رینگتا ہے عمر کے ساتھ

    وقت بس رینگتا ہے عمر کے ساتھ تارہ تارہ گنا ہے عمر کے ساتھ کتنا آسان سا تعلق تھا کتنا مشکل ہوا ہے عمر کے ساتھ پھر سفر نام ہے اذیت کا راستہ ہانپتا ہے عمر کے ساتھ کس کی آنکھوں کو نیند چبھتی ہے کون جاگا رہا ہے عمر کے ساتھ جانے آرام آئے گا کب تک درد بڑھنے لگا ہے عمر کے ساتھ اک گنہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2