تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے

تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے
میں رنگ رنگ ہوں لیکن سنگھار باقی ہے


ہوائیں تھم گئیں گرد و غبار بیٹھ گیا
اک اپنی ذات کا بس انتشار باقی ہے


تمام عمر پلایا ہے جس کو اپنا لہو
اس ایک پھول پہ اب تک نکھار باقی ہے


تمہارے نام کی خوشبو سے رچ گئی ہے فضا
صدا کی گونج میں پیہم پکار باقی ہے


جو گھاؤں بھر گیا اس کا نشان ہے اب تک
اس ایک زخم میں اب بھی بہار باقی ہے


جو رات ہجر کی گزری تمہارے پہلو میں
اس ایک شب کا ابھی تک خمار باقی ہے


تم ایک بھولی ہوئی داستان ہو لیکن
تمہاری یاد میں اک سوگوار باقی ہے