Yagana Changezi

یگانہ چنگیزی

ممتاز قبل از جدید شاعر جنہوں نے نئی غزل کے لئے راہ ہموار کی۔ مرزا غالب کی مخالفت کے لئے مشہور

One of most inspiring pre-modern poets who laid foundations for modern ghazal. Known for his sustained denunciation of Mirza Ghalib and contemporary poetry in Lucknow.

یگانہ چنگیزی کی غزل

    فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا

    فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا چار دن تک تو جوانی کا عجب جوش رہا میں قفس میں بھی کسی روز نہ خاموش رہا کشمکش میں بھی طبیعت کا وہی جوش رہا نشۂ الفت ساقی کا عجب جوش رہا ہول صحرائے قیامت بھی فراموش رہا غیر ہوں جرعہ کش بزم تمنا افسوس خون کے گھونٹ میں پیتا رہا خاموش رہا ہیچ آفت ...

    مزید پڑھیے

    برگشتہ اور وہ بت بے پیر ہو نہ جائے

    برگشتہ اور وہ بت بے پیر ہو نہ جائے الٹی کہیں دعاؤں کی تاثیر ہو نہ جائے دل جل کے خاک ہو تو پھر اکسیر ہو نہ جائے جاں سوز ہوں جو نالے تو تاثیر ہو نہ جائے کس سادگی سے مجرموں نے سر جھکا لیا محجوب کیوں وہ مالک تقدیر ہو نہ جائے دست دعا تک اٹھ نہ سکے فرط شرم سے یا رب کسی سے ایسی بھی تقصیر ...

    مزید پڑھیے

    رہے دنیا میں محکوم دل بے مدعا ہو کر

    رہے دنیا میں محکوم دل بے مدعا ہو کر خوشا انجام اٹھے بھی تو محروم دعا ہو کر وطن کو چھوڑ کر جس سر زمیں کو میں نے عزت دی وہی اب خون کی پیاسی ہوئی ہے کربلا ہو کر بتاؤ ایسے بندے پر ہنسی آئے کہ غیظ آئے دعا مانگے مصیبت میں جو قصداً مبتلا ہو کر کھلا آخر فریب مے چلا جب درد کا ساغر بندھا ...

    مزید پڑھیے

    قفس کو جانتے ہیں یاسؔ آشیاں اپنا

    قفس کو جانتے ہیں یاسؔ آشیاں اپنا مکان اپنا زمین اپنی آسماں اپنا ہوائے تند میں ٹھہرا نہ آشیاں اپنا چراغ جل نہ سکا زیر آسماں اپنا سنا ہے رنگ زمانہ کا اعتبار نہیں بدل نہ جائے یقیں سے کہیں گماں اپنا بس ایک سایۂ دیوار یار کیا کم ہے اٹھا لے سر سے مرے سایہ آسماں اپنا مزے کے ساتھ ہوں ...

    مزید پڑھیے

    خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

    خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا پیام زیر لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی رہا نہ گیا ہنسی میں وعدۂ فردا کو ٹالنے والو لو دیکھ لو وہی کل آج بن کے آ نہ گیا گناہ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری کسی پہ ہنس لیے اتنا کہ پھر ہنسا نہ ...

    مزید پڑھیے

    غضب کی دھوم شبستان روزگار میں ہے

    غضب کی دھوم شبستان روزگار میں ہے کشش بلا کی تماشائے ناگوار میں ہے دکھائی آج ہی آنکھوں نے صورت فردا خزاں کی سیر بھی ہنگامۂ بہار میں ہے غبار بن کے لپٹتی ہے دامن دل سے مٹے پہ بھی وہی دل بستگی بہار میں ہے دعائے شوق کجا ایک ہاتھ ہے دل پر اور ایک ہاتھ گریبان تار تار میں ہے ہنوز گوش ...

    مزید پڑھیے

    قصہ کتاب عمر کا کیا مختصر ہوا

    قصہ کتاب عمر کا کیا مختصر ہوا رخ داستان غم کا ادھر سے ادھر ہوا ماتم سرائے دہر میں کس کس کو روئیے اے وائے درد دل نہ ہوا درد سر ہوا تسکین دل کو راز خودی پوچھتا ہے کیا کہنے کو کہہ دوں اور اگر الٹا اثر ہوا آزاد ہو سکا نہ گرفتار شش جہت دل مفت بندۂ ہوس بال و پر ہوا دنیا کے ساتھ دین کی ...

    مزید پڑھیے

    خدا معلوم کیسا سحر تھا اس بت کی چتون میں

    خدا معلوم کیسا سحر تھا اس بت کی چتون میں چلے جاتی ہیں اب تک چشمکیں شیخ و برہمن میں چھپیں گے کیا اسیران بلا صحرا کے دامن میں محبت دام کی پھر کھینچ کر لائے گی گلشن میں حجاب اٹھا زمیں سے آسماں تک چاندنی چھٹکی گہن میں چاند تھا جب تک چھپے بیٹھے تھے چلمن میں کنکھیوں سے جو ہم کو بزم ...

    مزید پڑھیے

    خداؤں کی خدائی ہو چکی بس

    خداؤں کی خدائی ہو چکی بس خدارا بس دہائی ہو چکی بس کسی ڈھب سے نپٹ لو جب مزا ہے بہت زور آزمائی ہو چکی بس بجھائے کون تو جس کو جلائے پتنگوں کی چڑھائی ہو چکی بس ہوا میں اڑ گیا ایک ایک پتا گلوں کی جگ ہنسائی ہو چکی بس بھلا اب کیا جچوں اپنی نظر میں نظر اپنی پرائی ہو چکی بس رہا کیا جب ...

    مزید پڑھیے

    دل عجب جلوۂ امید دکھاتا ہے مجھے

    دل عجب جلوۂ امید دکھاتا ہے مجھے شام سے یاسؔ سویرا نظر آتا ہے مجھے جلوۂ دار و رسن اپنے نصیبوں میں کہاں کون دنیا کی نگاہوں پہ چڑھاتا ہے مجھے دل کو لہراتا ہے ہنگامۂ زندان بلا شور ایذا طلبی وجد میں لاتا ہے مجھے پائے آزاد ہے زنداں کے چلن سے باہر بیڑیاں کیوں کوئی دیوانہ پہناتا ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4