رہے دنیا میں محکوم دل بے مدعا ہو کر

رہے دنیا میں محکوم دل بے مدعا ہو کر
خوشا انجام اٹھے بھی تو محروم دعا ہو کر


وطن کو چھوڑ کر جس سر زمیں کو میں نے عزت دی
وہی اب خون کی پیاسی ہوئی ہے کربلا ہو کر


بتاؤ ایسے بندے پر ہنسی آئے کہ غیظ آئے
دعا مانگے مصیبت میں جو قصداً مبتلا ہو کر


کھلا آخر فریب مے چلا جب درد کا ساغر
بندھا زور خمار اندیشۂ روز جزا ہو کر


نگاہ یاسؔ ہی گویا دوبارہ زندگی پائی
جو چونکا خواب غفلت کے مزے سے آشنا ہو کر