موسم کی وراثت
کھیت پیاسے ہیں فضا ہانپتی ہے جا بہ جا اکھڑی جڑیں چاٹتی اک گائے کے سوکھے ہوئے مٹیالے کھروں کی مانند پھٹ گئی ہے جو زمیں اس میں اگی جھاڑیاں بے برگ و ثمر رہتی ہیں موسم ہو کوئی کسی فالج زدہ بیمار کے اکڑے ہوئے پنجے کی طرح ٹہنیاں سوئے فلک دیکھتی فریاد کناں ہیں کب سے محض فریاد سے اے دوست ...