Wali Alam Shaheen

ولی عالم شاہین

ولی عالم شاہین کی نظم

    شہر سے باہر نکلتے راستے

    سوچتا ہوں میں تمہارے زیر لب حرف سخن میں کوئی افسانہ ہے مضمر یا حقیقت یا فریب پختہ کاراں میں نظر رکھتا ہوں تم پر اور تمہاری آنکھ ہے پیہم تعاقب میں کسی اک اجنبی کے اجنبی جو خود ہراساں اور پریشاں حال ہے دوسری جانب سڑک پر دیر سے اک اور شخص جھوٹ کو سچ کہہ کے جو اعلان کرتا پھر رہا ہے دل ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی

    پتے اپنے سایوں میں کیا ڈھونڈتے ہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے شاخ سے ٹوٹ کے اپنے ہی ان سایوں پر گر جاتے ہیں نیلی چڑیا شام کی نیلی روشنیوں میں بھیگے پر پھیلاتی ہے پر پھیلانے کی لذت سے خواب زدہ ہو جاتی ہے بھولے بسرے سپنے دیکھتی آنکھیں موندتی آنکھیں کھولتی چپکے سے سو جاتی ہے

    مزید پڑھیے

    کسیلا ذائقہ

    بہ یک جنبش مری آنکھوں کو پتھر کر دیا جس نے وہ خنجر کاش سینے میں مرے پیوست ہو جاتا رواں ہے وقت کی سفاک محرابوں کے نیچے نہر خوں بستہ سسکتی چیختی تنہا صداؤں کی میں اب کس کے لیے گھر کے کھنڈر میں خواب گھر کے دیکھتا جاؤں زباں پر ہے کسیلا ذائقہ تانبے کے سکے کا کہاں تک ہر کسی کے سامنے ...

    مزید پڑھیے

    دنیا تو یہ کہتی ہے

    دنیا تو یہ کہتی ہے بہت مجھ میں ہنر ہے میں چاہوں تو دنیا کو چمن زار بنا دوں آ جاتا ہے ان باتوں میں دنیا کے مرا دل جٹ جاتا ہوں میں کام میں جی جان لگا کر پھر بے خبری حد سے گزر جاتی ہے میری بٹتا نہیں چل پڑتا ہوں جب اپنی ڈگر پر یہ دیکھ کے کچھ روز تو چپ رہتی ہے دنیا دے جاتی ہے ناگاہ مگر ...

    مزید پڑھیے

    آخری قافلہ

    نہ جانے سرگوشیوں میں کتنی کہانیاں ان کہی ہیں اب تک برہنہ دیوار پر ٹنگے پر کشش کلنڈر میں دائرے کا نشان عمر گریز پا کو دوام کے خواب دے گیا ہے جس میں سلگتے سیارے گیسوؤں کے گھنے خنک سائے ڈھونڈتے ہیں گلاب سانسوں سے جیسے شادابیوں کی تخلیق ہو رہی ہے وہ جھک کے پھولوں میں اپنے بھیگے بدن ...

    مزید پڑھیے

    سکہ پانی اور ستارہ

    موند کر آنکھیں بڑے ہی دھیان سے میں نے پیچھے کی طرف حوض کے پانی میں سکے پھینکتے ہی اک ذرا سی چھیڑ کی اپنے دل خوش فہم سے اے باؤلے اب تو ہو جائے گی پوری خیر سے تیری مراد سہ پہر کی دھوپ میں حوض کے جھرنے میں سکے سات رنگوں میں چمکتے یوں دکھائی دے رہے تھے جیسے ہم آواز ہو کر سب اڑاتے ہوں ...

    مزید پڑھیے

    نقدی کہاں سے آئے گی

    پہلے راتیں اتنی لمبی کب ہوتی تھیں جو بھی حساب اور کھیل ہوا کرتا تھا سب موسم کا تھا روز و شب کی ہر ساعت کا اک جیسا پیمانہ تھا اپنے ملنے والے سارے جھوٹے سچے یاروں سے اک مستحکم یارانہ تھا لیکن اپنے درد کی سمتوں کی پہچان نہ رکھنے والے دل یہ سوچنا تھا ہر خواب کی قیمت ہوتی ہے اور اب ان ...

    مزید پڑھیے

    حیرانی کا بوجھ

    مٹی کی دیوار پہ اک کھونٹی سے لٹکی میری یادوں کی زنبیل جس میں چھپے تھے رنگ برنگے کپڑوں کے بوسیدہ کترن گول گول سی ننھی منی کر دھنیوں کے دانے اک امرود کی ڈالی کاٹ کے بابا نے جو بنائی تھی وہ ٹیڑھی میڑھی ایک غلیل نیلے پیلے مٹیالے اور لال پروں کی ڈھیری چوڑے منہ کا اک منہ زور سا کاٹھ کا ...

    مزید پڑھیے

    گلاب بکف

    بہار کی یہ دل آویز شام جس کی طرف قدم اٹھائے ہیں میں نے کہ اس سے ہاتھ ملاؤں اور اک شگفتہ شناسائی کی بنا رکھوں پھر اپنی خانہ بدوشی کی مشترک لے پر اسے گلاب بکف خیمۂ جنوں تک لاؤں کچھ اس کی خیر خبر پوچھوں اور کچھ اپنی کہوں کہوں کہ کتنے ہی پت جھڑ کے موسم آئے گئے مگر ان آنکھوں کی ...

    مزید پڑھیے

    اینٹینا کے نیزے

    گم ہوئے یوں کہ کبھی میرے شناسا ہی نہ تھے کچھ لکھا ہوتا تمہیں مجھ سے شکایت کیا ہے خبر کب آئے ہو کیسے سناؤ پیارے کیا خبر لائے ہو یاروں کی حکایت کیا ہے اس نے یہ کچھ نہ کہا اور کہا تو اتنا کھیل دل چسپ ہے نظارہ کرو اور پھر ایک خلا ایک گراں بار خموشی کی اذیت لے کر میں یہ کہتا ہوا اٹھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2