Wali Alam Shaheen

ولی عالم شاہین

ولی عالم شاہین کی غزل

    پرائی آگ میں یوں جل بجھے شرر میرے

    پرائی آگ میں یوں جل بجھے شرر میرے کھلے نہ مجھ پہ بھی احوال بیشتر میرے ہے زرد رینگتے سایوں کی زد میں شاخ گلاب تم آئے ہو بھی تو کس رت میں آج گھر میرے سزا وجود سے بھی قبل ہو چکی مقسوم خبر نہ رکھ مری اس درجہ بے خبر میرے چھتوں پہ سایہ کناں بیل جل گئی ہوگی سلگ اٹھے ہیں کچھ اس طور بام و ...

    مزید پڑھیے

    یہ بھی شاید ترا اعجاز نظر ہے اے دوست

    یہ بھی شاید ترا اعجاز نظر ہے اے دوست شعلۂ درد مجھے اک گل تر ہے اے دوست تیری آواز تو صحرا میں بھٹک جاتی ہے کس طرف جاؤں میں تو جانے کدھر ہے اے دوست ہائے یہ بے‌‌ سر و سامانی و بے ترتیبی زندگی کیا کسی مے خوار کا گھر ہے اے دوست کتنے طوفانوں کو سر کرتی ہے اک شمع وفا اور وہ شمع وفا درد ...

    مزید پڑھیے

    سفر ہے ختم مگر بے گھری نہ جائے گی

    سفر ہے ختم مگر بے گھری نہ جائے گی ہمارے گھر سے یہ پیغمبری نہ جائے گی نظر گنوا بھی چکے تجھ کو دیکھنے والے افق افق تری جلوہ‌ گری نہ جائے گی میں اپنے خواب تراشوں انہیں بکھیروں بھی مری سرشت سے یہ آذری نہ جائے گی حسیں ہے شیشہ و آہن کا امتزاج مگر تری سیاست آہن گری نہ جائے گی میں سب ...

    مزید پڑھیے

    دل جہاں بھی ڈوبا ہے ان کی یاد آئی ہے

    دل جہاں بھی ڈوبا ہے ان کی یاد آئی ہے ہائے کیا سکوں پرور درد آشنائی ہے تم سراب بن بن کر اپنی چھب دکھاتے ہو تشنہ لب مسافر کی جان پر بن آئی ہے یہ کشاکش ہستی کتنی دور لے آئی دن کہاں گزارا ہے شب کہاں گنوائی ہے زندگی تری خاطر تیرے درد مندوں نے اک جہان کی تہمت اپنے سر اٹھائی ہے روز و ...

    مزید پڑھیے

    چہروں میں نظر آئیں آنکھوں میں اتر جائیں

    چہروں میں نظر آئیں آنکھوں میں اتر جائیں ہم تجھ سے جدا ہو کر ہر سمت بکھر جائیں دن بھر کی مشقت سے تھک ہار کے گھر جائیں اور اپنی ہی دستک کی آواز سے ڈر جائیں اچھا ہے کہ ہم اپنے ہونے سے مکر جائیں یا اپنی خبر دے کر چپکے سے گزر جائیں جس شہر بھی ہم جیسے برباد نظر جائیں اوراق مصور کے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی ہے مختصر آہستہ چل

    زندگی ہے مختصر آہستہ چل کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ چل ایک اندھی دوڑ ہے کس کو خبر کون ہے کس راہ پر آہستہ چل دیدۂ حیراں کو اک منظر بہت یوں ہی نظارہ نہ کر آہستہ چل تیزگامی جس شکم کی آگ ہے اس سے بچنا ہے ہنر آہستہ چل جو تگ و دو سے تری حاصل ہوا رکھ کچھ اس کی بھی خبر آہستہ چل روز و شب یوں ...

    مزید پڑھیے

    میں خامشی کے جزیرے میں ایک پتھر تھا

    میں خامشی کے جزیرے میں ایک پتھر تھا مگر صداؤں کا ریلا مرا مقدر تھا نہ جانے کون تھا کس اجنبی سفر پر تھا وہ قافلے سے الگ قافلے کے اندر تھا تمام شہر کو اس کا پتہ ملا مجھ سے وہ آئنے میں تھا پر آئنے سے باہر تھا وہ جا رہا تھا سمندر کو جھیلنے کے لئے عرق عرق سر ساحل تمام منظر تھا کھلا ...

    مزید پڑھیے

    کسی میں تاب نہ تھی تہمتیں اٹھانے کی

    کسی میں تاب نہ تھی تہمتیں اٹھانے کی جلے چراغ تو پلکیں جھکیں زمانے کی جسے بھی دیکھیے اپنی انا کا مارا ہے امید کس سے رکھے کوئی داد پانے کی تری گلی میں بھی دار و رسن کا چرچا ہے بدل گئی ہے ہوا کس قدر زمانے کی چراغ کشتہ کی مانند نوحہ خواں یہ لوگ بنے ہیں سرخئ آغاز کس فسانے کی لرزتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3