یہ بھی شاید ترا اعجاز نظر ہے اے دوست

یہ بھی شاید ترا اعجاز نظر ہے اے دوست
شعلۂ درد مجھے اک گل تر ہے اے دوست


تیری آواز تو صحرا میں بھٹک جاتی ہے
کس طرف جاؤں میں تو جانے کدھر ہے اے دوست


ہائے یہ بے‌‌ سر و سامانی و بے ترتیبی
زندگی کیا کسی مے خوار کا گھر ہے اے دوست


کتنے طوفانوں کو سر کرتی ہے اک شمع وفا
اور وہ شمع وفا درد جگر ہے اے دوست


گر ہو خوابیدہ تو پتھر کے سوا کچھ بھی نہیں
جاگ جائے جو یہی دل تو شرر ہے اے دوست


یوں تو غم زیست کو بے رنگ بنا دیتا ہے
دل جلوں کا یہی سرمایہ مگر ہے اے دوست