ہر ایک سمت جب اس کو پکارنا ٹھہرا
ہر ایک سمت جب اس کو پکارنا ٹھہرا وہ پھر مری رگ جاں سے قریب کیا ٹھہرا فریب خوردہ نظر کو فریب دوں کب تک وہ ایک ابر تھا کیا آیا اور کیا ٹھہرا جدھر سے جائیے رستے ادھر ہی جاتے تھے مگر وہاں سے نکلنا تو معجزہ ٹھہرا وہ سیل تھا کہ مسافر عدم کی راہ گئے جہاز دور مگر خشکیوں پہ جا ٹھہرا جو ...