شہر خوباں سے جو ہم اب بھی گزر آتے ہیں

شہر خوباں سے جو ہم اب بھی گزر آتے ہیں
کتنے دھندلائے ہوئے نقش ابھر آتے ہیں


رات جا چھپتی ہے سنسان جزیروں میں کہیں
رات کے خواب مری روح میں در آتے ہیں


سحر‌ انداز ہے کیا نیم نگاہی تیری
ایک سے کافر و دیں دار نظر آتے ہیں


کس کو سچ کہیے گا کس روپ کو جھٹلائیے گا
آئنے میں تو کئی عکس اتر آتے ہیں


ایک مدت سے ہیں اس شہر میں ہم آوارہ
بام و در آج بھی انجان نظر آتے ہیں


وہ بلاتے تو ہیں شاہینؔ سر بام مگر
ہم ہی کچھ سوچ کے زینوں سے اتر آتے ہیں