Waheed Akhtar

وحید اختر

ممتاز ترین جدید شاعروں اور نقادوں میں نمایاں

One of most outstanding modern poets and critics.

وحید اختر کی غزل

    خوشبو ہے کبھی گل ہے کبھی شمع کبھی ہے

    خوشبو ہے کبھی گل ہے کبھی شمع کبھی ہے وہ آتش سیال جو سینے میں بھری ہے بادہ طلبی شوق کی دریوزہ گری ہے صد شکر کہ تقدیر ہی یاں تشنہ لبی ہے غنچوں کے چٹکنے کا سماں دل میں ابھی ہے ملنے میں جو اٹھ اٹھ کے نظر ان کی جھکی ہے اب ضبط سے کہہ دے کہ یہ رخصت کی گھڑی ہے اے وحشت غم دیر سے کیا سوچ رہی ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ جو نم ہو وہی دیدۂ تر میرا ہے

    آنکھ جو نم ہو وہی دیدۂ تر میرا ہے موج غم اٹھے کہیں اس کا گہر میرا ہے دیکھ لوں میں تو ستارے ہیں نہ دیکھوں تو دھواں کیا رسا اتنا کف دست نظر میرا ہے ثمر و گل ہیں گلستان فروشوں کے لیے آبیاری کے لیے خون جگر میرا ہے قصر ہو یا کہ لحد دونوں کرایے کے مکاں روز کہتا ہے کوئی آ کے یہ گھر میرا ...

    مزید پڑھیے

    اک دشت بے اماں کا سفر ہے چلے چلو

    اک دشت بے اماں کا سفر ہے چلے چلو رکنے میں جان و دل کا ضرر ہے چلے چلو حکام و سارقین کی گو رہگزر ہے گھر پھر بھی برائے بیت تو در ہے چلے چلو مسجد ہو مدرسہ ہو کہ مجلس کہ مے کدہ محفوظ شر سے کچھ ہے تو گھر ہے چلے چلو ظلمت ہے یاں بھی واں بھی اندھیرے ہی ہوں تو کیا نور اک ورائے حد نظر ہے چلے ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو منظور تمہارا جو نہ پردا ہوتا

    ہم کو منظور تمہارا جو نہ پردا ہوتا سارا الزام سر اپنے ہی نہ آیا ہوتا دوست احباب بھی بے گانے نظر آتے ہیں کاش اک شخص کو اتنا بھی نہ چاہا ہوتا مفت مانگا تھا کسی نے سو اسے بخش دیا ایسا سستا بھی نہ تھا دل جسے بیچا ہوتا جان کر ہم نے کیا خود کو خراب و رسوا ورنہ ہم وہ تھے فرشتوں نے بھی ...

    مزید پڑھیے

    رہے وہ ذکر جو لب ہائے آتشیں سے چلے

    رہے وہ ذکر جو لب ہائے آتشیں سے چلے چلے وہ دور جو رفتار ساتگیں سے چلے ہزاروں سال سفر کر کے پھر وہیں پہنچے بہت زمانہ ہوا تھا ہمیں زمیں سے چلے خرد بنی رہی زنجیر پائے شوق مگر جنوں کے جتنے بھی ہیں سلسلے ہمیں سے چلے فرات جیت کے بھی تشنہ لب رہی غیرت ہزار تیر ستم ظلم کی کمیں سے ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے دیکھا ہے محبت کا سزا ہو جانا

    ہم نے دیکھا ہے محبت کا سزا ہو جانا صبح دیدار کا بھی شام ملا ہو جانا پہلے اتنا نہ پراگندہ مزاج دل تھا بے سبب ہنسنا تو بے وجہ خفا ہو جانا جی کے بہلانے کو دنیا میں سہارے ہیں بہت سازگار آئے تمہیں ہم سے جدا ہو جانا ہم ہیں شمع سر باد اور ہو تم موج ہوا گھومنے پھرنے ادھر کو بھی ذرا ہو ...

    مزید پڑھیے

    دیوانوں کو منزل کا پتا یاد نہیں ہے

    دیوانوں کو منزل کا پتا یاد نہیں ہے جب سے ترا نقش کف پا یاد نہیں ہے افسردگی عشق کے کھلتے نہیں اسباب کیا بات بھلا بیٹھے ہیں کیا یاد نہیں ہے ہم دل زدگاں جیتے ہیں یادوں کے سہارے ہاں مٹ گئے جس پر وہ ادا یاد نہیں ہے گھر اپنا تو بھولی ہی تھی آشفتگی دل خود رفتہ کو اب در بھی ترا یاد نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دفتر لوح و قلم یا در غم کھلتا ہے

    دفتر لوح و قلم یا در غم کھلتا ہے ہونٹ کھلتے ہیں تو اک باب ستم کھلتا ہے حرف انکار ہے کیوں نار جہنم کا حلیف صرف اقرار پہ کیوں باب ارم کھلتا ہے آبرو ہو نہ جو پیاری تو یہ دنیا ہے سخی ہاتھ پھیلاؤ تو یہ طرز کرم کھلتا ہے مانگنے والوں کو کیا عزت و رسوائی سے دینے والوں کی امیری کا بھرم ...

    مزید پڑھیے

    کہیں شنوائی نہیں حسن کی محفل کے خلاف

    کہیں شنوائی نہیں حسن کی محفل کے خلاف گل نہ کیوں ہنستے رہیں شور عنادل کے خلاف جان و ایماں بھی وہی دشمن جان و ایماں ہم گواہی بھی نہ دیں گے کہیں قاتل کے خلاف کسی جادے پہ چلو چھوڑے گی تنہائی نہ ساتھ قدم اٹھیں تو کدھر عشق کی منزل کے خلاف بزم یاراں ہو کہ مے نغمہ کے فیضان سخن سب ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کیوں تری قند لبی خوش سخنی یاد آئی

    کیوں تری قند لبی خوش سخنی یاد آئی زہر افشانیٔ دنیائے دنی یاد آئی پئے گل گشت چمن پھر دل دیوانہ چلا پھر تری سر و قدی گل بدنی یاد آئی جب کسی جسم پہ سجتے ہوئے دیکھا ہے لباس تیری خوش قامتی خوش پیرہنی یاد آئی یوں نباہا ترا وعدہ ترے غم نے برسوں غم ایام کی پیماں شکنی یاد آئی جام ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3