ونیت آشنا کی غزل

    سارے ستاروں کے ہمیں تنہا رقیب تھے

    سارے ستاروں کے ہمیں تنہا رقیب تھے ہم ایک شب تو چاند کے اتنے قریب تھے ہاتھوں کو یہ گلہ ہیں بڑے کم نصیب ہم آنکھیں یہ سوچتی ہیں کہ ہم خوش نصیب تھے رکھی ہے آپ ہی کے لیے جاں سنبھال کر یوں شہر میں کچھ اور بھی حسن صلیب تھے ہم میں ہی کچھ کمی تھی جو سمجھے نہ جا سکے ورنہ ہمارے دوست تو سارے ...

    مزید پڑھیے

    موند کر بس آنکھ اپنی ان مناظر کے خلاف

    موند کر بس آنکھ اپنی ان مناظر کے خلاف کر رہے ہیں ہم بغاوت دور حاضر کے خلاف تجھ تلک آواز میری جاتے جاتے کھو گئی راستے سب ہو گئے ہیں اس مسافر کے خلاف حوصلہ جو ہے تو للکارو خدا کو بھی کبھی کیا ملے گا تم کو ہو کر ہم سے کافر کے خلاف ایک ادنیٰ دل کے ہاتھوں دونوں ہیں مجبور ہم آؤ تھامیں ...

    مزید پڑھیے

    اک دوجے میں بھی تو رہا جا سکتا ہے

    اک دوجے میں بھی تو رہا جا سکتا ہے ہجر ابھی کچھ دن ٹالا جا سکتا ہے یوں بھی تو کتنی چیزیں ہیں اس گھر میں میرا دل کچھ روز رکھا جا سکتا ہے خار اگر ہیں پھول بھی تو ہے تھوڑے سے دامن کو تو مہکایا جا سکتا ہے کاش مرا دل وہ بچہ ہی رہتا جو آسانی سے بہلایا جا سکتا ہے پیراہن الفاظ کے بوٹوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2