موند کر بس آنکھ اپنی ان مناظر کے خلاف
موند کر بس آنکھ اپنی ان مناظر کے خلاف
کر رہے ہیں ہم بغاوت دور حاضر کے خلاف
تجھ تلک آواز میری جاتے جاتے کھو گئی
راستے سب ہو گئے ہیں اس مسافر کے خلاف
حوصلہ جو ہے تو للکارو خدا کو بھی کبھی
کیا ملے گا تم کو ہو کر ہم سے کافر کے خلاف
ایک ادنیٰ دل کے ہاتھوں دونوں ہیں مجبور ہم
آؤ تھامیں ہاتھ ہم اس شۓ شاطر کے خلاف
اک طرف تھا میں نہتھا اک طرف وہ گل بدن
عشق کی بازی میں ہارا ایک ماہر کے خلاف
ایک اک کر کے سبھی پرزے اسی کے ہو گئے
اب بدن میں ہوں میں تنہا حسن جابر کے خلاف
آشناؔ پھر خواب میں آیا نہیں تو رات بھر
تو بھی شاید ہو گیا ہے ایک شاعر کے خلاف