سوز غم سے جگر جل رہا ہے مگر مرا درد نہاں آشکارا نہیں
سوز غم سے جگر جل رہا ہے مگر مرا درد نہاں آشکارا نہیں گھٹ کے مرنا گوارا ہے اے چارہ گر راز الفت عیاں ہو گوارا نہیں شمع جلتی رہی رات ڈھلتی رہی نبض بیمار رک رک کے چلتی رہی آ کے دم بھر کے مہماں کو اب دیکھ لو اس کے بچنے کا کوئی سہارا نہیں بچ کے طوفاں کی زد سے کہاں جائے گا اب کہاں تک ...