سوز غم سے جگر جل رہا ہے مگر مرا درد نہاں آشکارا نہیں

سوز غم سے جگر جل رہا ہے مگر مرا درد نہاں آشکارا نہیں
گھٹ کے مرنا گوارا ہے اے چارہ گر راز الفت عیاں ہو گوارا نہیں


شمع جلتی رہی رات ڈھلتی رہی نبض بیمار رک رک کے چلتی رہی
آ کے دم بھر کے مہماں کو اب دیکھ لو اس کے بچنے کا کوئی سہارا نہیں


بچ کے طوفاں کی زد سے کہاں جائے گا اب کہاں تک تلاطم سے ٹکرائے گا
اس سفینہ کو اب ڈوب جانے بھی دو جس کی قسمت میں کوئی کنارا نہیں


ہے چمن تو وہی وہ نشیمن کہاں چند تنکوں کی خاطر چلیں آندھیاں
اب وہ جھونکے نہیں اب وہ طوفان نہیں اب وہ شعلے نہیں وہ شرارا نہیں


خار و گل میں ہے باہم یہ پیکار کیا یہ جفا و وفا میں ہے تکرار کیا
دل کی بازی میں ہے جیت کیا ہار کیا حسن جیتا نہیں عشق ہارا نہیں


جس سے بزم وفا میں چراغاں نہ ہو دل کی ویران بستی گلستاں نہ ہو
یہ تبسم تو کوئی تبسم نہیں یہ اشارا تو کوئی اشارا نہیں


دل سے بگڑی خرد سے خفا ہو گیا دین و دنیا سے نا آشنا ہو گیا
بیٹھے بیٹھے وفاؔ کو یہ کیا ہو گیا اب تمہارا کرم بھی گوارا نہیں