Usha Bhadoriya

اوشا بھدوریہ

اوشا بھدوریہ کی غزل

    آسماں سے صحیفے اترتے رہے

    آسماں سے صحیفے اترتے رہے روشنی سے مگر لوگ ڈرتے رہے زندگی اتنی مجبور سی ہو گئی حادثے مجھ کو اشکوں سے بھرتے رہے جن کو سب کچھ ملا ان کو سب کچھ ملا جو بکھرتے رہے بس بکھرتے رہے بن گئیں جب بھی ہم راز تنہائیاں دل کی ہر بات ہم دل سے کرتے رہے آتے جاتے نظر تجھ سے ملتی رہی آئنہ زاویوں پر ...

    مزید پڑھیے

    کہیں دعا تو کہیں حرف التجا ٹھہری

    کہیں دعا تو کہیں حرف التجا ٹھہری میں اپنے آپ میں ڈوبی تو بے صدا ٹھہری میں جانتی ہوں سلامت نہیں کوئی دامن یہ روشنی بھی کہاں کس کا آئنہ ٹھہری سفر تھا شرط مگر جب بھی ایک نام آیا قدم تو چلتے رہے روح جا بجا ٹھہری تو درمیاں میں ملا درمیاں میں چھوٹ گیا جو ابتدا تھی مری حد انتہا ...

    مزید پڑھیے

    وہ آنکھ دے قریب کا سایہ دکھائی دے

    وہ آنکھ دے قریب کا سایہ دکھائی دے آواز روشنی کی کہیں تو سنائی دے جس نام کو جیا ہے بڑے اعتماد سے اس کو بھی زندگی سے کبھی آشنائی دے ایسا ہوا تو جینے نہ دیں گے کسی کو لوگ انساں کے ہاتھ میں نہ مرے رب خدائی دے میں جانتی ہوں پاؤں رکھے ہیں مرے کہاں خود سے کروں سوال کوئی جب بڑائی دے کب ...

    مزید پڑھیے

    اکثر مری زمیں نے مرے امتحاں لئے

    اکثر مری زمیں نے مرے امتحاں لئے زندہ ہوں اپنے سر پہ کئی آسماں لئے بے چارگی کبھی مجھے ثابت نہ کر سکی کیا کیا مری حیات نے میرے بیاں لئے اپنی صداقتوں سے بھی لگنے لگا ہے ڈر چلنا ہے اس زمیں پہ سراب گماں لئے اور میں کہ اپنی ذات سے نسبت نہیں مری ہر شخص پھر رہا ہے مری داستاں لئے مانگی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو محبتوں کی وفائیں نبھاؤں میں

    کچھ تو محبتوں کی وفائیں نبھاؤں میں شاداب بارشوں کی ہوائیں نبھاؤں میں اتنے قریب آؤ بدن بھی سنائی دے گزرے دنوں کی نرم صدائیں نبھاؤں میں دل بھی تو چاہتا ہے کہ سبزہ کہیں کھلے بنجر زمیں پہ کالی گھٹائیں نبھاؤں میں دریا کی لہر پیاسے کناروں کو سونپ دوں معصوم آرزو کی خطائیں نبھاؤں ...

    مزید پڑھیے

    اندھیری شب میں چراغ رہ وفا دینا

    اندھیری شب میں چراغ رہ وفا دینا تعلقات کو نزدیک سے صدا دینا جہاں کھڑی ہوں وہاں سے پلٹ نہیں سکتی ابھی نہ مجھ کو محبت کا واسطہ دینا میں بے بسی کا سلیقہ نبھاؤں گی کب تک بڑھے جو پیاس چراغ صدا بجھا دینا بجھے بجھے سبھی منظر ہیں آشنائی کے مرے لبوں کو کوئی حرف مدعا دینا امید ہاتھ سے ...

    مزید پڑھیے

    ایک آشنا اکثر پاس سے گزرتا ہے

    ایک آشنا اکثر پاس سے گزرتا ہے مجھ پہ میری سچائی آشکار کرتا ہے کس قدر ہٹیلا ہے تیرا بے زباں سایہ جسم کی طرح اکثر روح میں اترتا ہے آپ کس لئے مجھ کو دیکھتے ہیں حیرت سے آدمی محبت میں کچھ بھی کر گزرتا ہے کیا خبر یہ بستی ہی آندھیوں میں اڑ جائے اک پرندہ پر اپنے کھولنے سے ڈرتا ہے تیرے ...

    مزید پڑھیے

    آئنہ سے بات کرنا اتنا آساں بھی نہیں

    آئنہ سے بات کرنا اتنا آساں بھی نہیں عکس کی تہہ سے ابھرنا اتنا آساں بھی نہیں خواہشیں سینے میں اگ آتی ہیں جنگل کی طرح زندگی بانہوں میں بھرنا اتنا آساں بھی نہیں اپنے ہی قدموں کی آہٹ جس جگہ چبھنے لگے ایسی راہوں سے گزرنا اتنا آساں بھی نہیں جانتی ہوں میں جدا ہے میرے خوابوں کا ...

    مزید پڑھیے

    اک تعلق سا کسی نام سے جب ہوتا ہے

    اک تعلق سا کسی نام سے جب ہوتا ہے بے سبب بھی کوئی جینے کا سبب ہوتا ہے بارہا سوچا مگر تم کو بتا بھی نہ سکی غم کا احساس مری روح کو کب ہوتا ہے ڈھونڈھتا رہتا ہے اکثر مرے اندر تجھ کو میری تنہائی کا عالم بھی عجب ہوتا ہے یوں بظاہر سبھی انجان نظر آتے ہیں جانتے سب ہیں کہ اس شہر میں سب ہوتا ...

    مزید پڑھیے

    اکثر تنہائی سے مل کر روئے ہیں

    اکثر تنہائی سے مل کر روئے ہیں ہم نے اپنے اشک آگ سے دھوئے ہیں بہت نبھائی لین دین کی رسمیں بھی کچھ آنسو پائے ہیں کچھ غم کھوئے ہیں جب بھی بارش نے مٹی سے منہ موڑا جلتے سورج نے ذرات بھگوئے ہیں خبر جہاں ملتی ہے اپنے ہونے کی ہم اس منزل پر بھی کھوئے کھوئے ہیں جب خود کو پانا ہی مشکل کام ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2