اک تعلق سا کسی نام سے جب ہوتا ہے
اک تعلق سا کسی نام سے جب ہوتا ہے
بے سبب بھی کوئی جینے کا سبب ہوتا ہے
بارہا سوچا مگر تم کو بتا بھی نہ سکی
غم کا احساس مری روح کو کب ہوتا ہے
ڈھونڈھتا رہتا ہے اکثر مرے اندر تجھ کو
میری تنہائی کا عالم بھی عجب ہوتا ہے
یوں بظاہر سبھی انجان نظر آتے ہیں
جانتے سب ہیں کہ اس شہر میں سب ہوتا ہے
اٹھ گیا جیسے زمانے سے محبت کا چلن
کون اب کس کے لئے خندہ بہ لب ہوتا ہے
لفظ بھی کھول نہیں پاتے کبھی لب اپنے
دوسرا نام محبت کا ادب ہوتا ہے
اپنے آغاز سے چلتی ہوں میں انجام کی سمت
میری صبحوں کا سفر جانب شب ہوتا ہے
کسی تنکے کا سہارا نہیں ملتا مجھ کو
ڈوب جانا مری تقدیر میں جب ہوتا ہے
چند بے نام سے رشتے ہیں لبوں پر اوشاؔ
کوئی دنیا میں کسی کا بھلا کب ہوتا ہے