ذہن و دل میں کچھ نہ کچھ رشتہ بھی تھا
ذہن و دل میں کچھ نہ کچھ رشتہ بھی تھا اے محبت میں کبھی یکجا بھی تھا مجھ میں اک موسم کبھی ایسا نہ تھا ایسا موسم جس میں تو مہکا بھی تھا تجھ سے ملنے کس طرح ہم آئے ہیں راستے میں خون کا دریا بھی تھا کج کلاہوں پر کہاں ممکن ستم ہاں مگر اس نے مجھے چاہا بھی تھا آج خود سایہ طلب ہے وقت سے یہ ...