ناز کر ناز کہ یہ ناز جدا ہے سب سے
ناز کر ناز کہ یہ ناز جدا ہے سب سے
میرا لہجہ مری آواز جدا ہے سب سے
جز محبت کسے معلوم کہ وہ چشم حیا
بات تو کرتی ہے انداز جدا ہے سب سے
جس کو بھی مار دیا زندۂ جاوید کیا
حرف حق تیرا یہ اعجاز جدا ہے سب سے
دیکھنا کون ہے کیا اس کو نہیں جان عزیز
سر دربار اک آواز جدا ہے سب سے
ٹوٹ جاتا ہے تو سر اور بھی لو دیتے ہیں
دل جسے کہتے ہیں وہ ساز جدا ہے سب سے
سوچ کر دام بچھانا ذرا اے موج ہوا
میرے انکار کی پرواز جدا ہے سب سے
نشۂ دہر و قیامت کا تو کیا ذکر امیدؔ
وہ مرا سرو سرافراز جدا ہے سب سے