آئینۂ وحشت کو جلا جس سے ملی ہے
آئینۂ وحشت کو جلا جس سے ملی ہے وہ گرد رہ ترک مراسم سے اٹھی ہے صدیوں کے تسلسل میں کہیں گردش دوراں پہلے بھی کہیں تجھ سے ملاقات ہوئی ہے اے کرب و بلا خوش ہو نئی نسل نے اب کے خود اپنے لہو سے تری تاریخ لکھی ہے اس کج کلۂ عشق کو اے مشق ستم دیکھ سر تن پہ نہیں پھر بھی وہی سرو قدی ہے کس ...