رہے خرام سلامت ندی کے دھاروں کا
رہے خرام سلامت ندی کے دھاروں کا نکل نہ جائے کہیں دم مگر کناروں کا تھا اضطراب و تمنائے دید گل کا کرم بہت کٹھن تھا سفر ورنہ خارزاروں کا ستا رہی ہے دل شب کو کل کے چاند کی یاد اڑا اڑا سا ہے کچھ آج رنگ تاروں کا جو خوش ہے ایک تو اس کی وفا کے چرچے ہیں دکھائے دل وہ جہاں میں بھلے ہزاروں ...