تری پراری کی غزل

    میں خود اپنا لہو پینے لگا ہوں

    میں خود اپنا لہو پینے لگا ہوں کہاں پانی کسی سے مانگتا ہوں یہ دنیا آگ ہے اک آگ جس میں میں خود کو جھونک دینا چاہتا ہوں تری خاموشیوں کے پنچھیوں کو میں آوازوں کے دانے بانٹتا ہوں اکیلے پن کے بیہڑ جنگلوں میں تمہارا نام لے کر چیختا ہوں لہکتی آگ کے تنور میں اب تمہاری یاد زندہ جھونکتا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کسی نے جو دل دکھایا تو دل کو سمجھا گئی اداسی

    کبھی کسی نے جو دل دکھایا تو دل کو سمجھا گئی اداسی محبتوں کے اصول سارے ہمیں بھی سکھلا گئی اداسی تمہیں جو سوچا تو میرے دل سے اداسیوں کا ہجوم گزرا کبھی کبھی تو ہوا ہے یوں بھی کہ بے سبب چھا گئی اداسی پڑی ہوئی تھی نڈھال ہو کر ہماری آنکھوں کے آنگنوں میں کسی کی آہٹ سنی تو چونکی ذرا سی ...

    مزید پڑھیے

    اس طرح رسم محبت کی ادا ہوتی ہے

    اس طرح رسم محبت کی ادا ہوتی ہے آج سے تیری مری راہ جدا ہوتی ہے میں کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہوں جب بھی کانوں میں اذانوں کی صدا ہوتی ہے بد دعا کوئی اگر دے تو برا مت مانو بد دعا بھی تو مری جان دعا ہوتی ہے نیند کے ساتھ ہی اک باب نیا کھلتا ہے خواب کے ٹوٹنے جڑنے کی کتھا ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    محبت میں شکایت کر رہا ہوں

    محبت میں شکایت کر رہا ہوں شکایت میں محبت کر رہا ہوں سنا ہے عادتیں مرتی نہیں ہیں سو خود کو ایک عادت کر رہا ہوں وہ یوں بھی خوب صورت ہے مگر میں اسے اور خوب صورت کر رہا ہوں کسے معلوم کب آئے قیامت سو ہر دن اک قیامت کر رہا ہوں اداسی سے بھری آنکھیں ہیں اس کی میں صدیوں سے زیارت کر رہا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2