تری پراری کی نظم

    ممبئی

    شہر ممبئی مجھے اس نے چنا ہے ہم سفر اپنا یہ میری سانس کے مرنے تلک سائے کی طرح ساتھ میں ہوگا شہر ایسا جو اجلی روشنی میں ڈوبا رہتا ہے مگر ان روشنی کے جھرمٹ میں تیرگی بھی ہے جہاں بازار زندہ ہے جہاں روحوں کا سودا رات دن ہوتا ہی رہتا ہے جہاں اپنوں سے لگتے ہیں نہ جانے کتنے بیگانے نظر جس ...

    مزید پڑھیے

    ذہن

    یہ دعویٰ ہے جہاں میں چند لوگوں کا کہ ہم نے زندگی کو جیت رکھا ہے ہمارے پاس یعنی ایٹمی ہتھیار ہیں اتنے ہمارا دوست ننھا ایلین بھی ہے کروڑوں سال کی تاریخ کو اب جانتے ہیں ہم کہ ہم نے موت پر اب فتح پا لی ہے پلینٹ مارس پر پانی بھی ڈھونڈا ہے یہ سب کہتے ہوئے اکثر وہ شاید بھول جاتے ہیں ابھی ...

    مزید پڑھیے

    عکس ریز

    صبح کے تین بجنے والے ہیں نیند ہے دور میری آنکھوں سے کروٹیں یوں بدل رہا ہوں میں آخری رات جیسے روگی کی چاندنی رس رہی ہے کھڑکی سے اوک میں بھر کے پی رہا ہوں میں یاد سی آ رہی ہے بچپن کی آسماں بھر رہا ہے تاروں سے جھینگروں کی صدا ہے کانوں میں جگنوؤں کی کئی قطاریں ہیں اک چٹائی بچھی ہے آنگن ...

    مزید پڑھیے

    آزادی

    زباں تم کاٹ لو یا پھر لگا دو ہونٹھ پر تالے مری آواز پر کوئی بھی پہرہ ہو نہیں سکتا مجھے تم بند کر دو تیرگی میں یا سلاخوں میں پرندہ سوچ کا لیکن یہ ٹھہرا ہو نہیں سکتا اگر تم پھونک کر سورج بجھا دو گے تو سن لو پھر جلا کر ذہن یہ اپنا اجالا چھانٹ لوں گا میں سیاہی ختم ہوئے گی قلم جب ٹوٹ جائے ...

    مزید پڑھیے

    ارملا

    یہ راماین جو ہندستان کی رگ رگ میں شامل ہے جسے اک بالمیکی نام کے شاعر نے لکھا تھا بہت ہی خوب صورت ایک ایپک ہے فسانہ در فسانہ بات کوئی منجمد ہے اموشن قید ہیں لاکھوں طرح کے کئی کردار ہیں جو صاحب کردار لگتے ہیں مگر اک بات ہے جو مدتوں سے مجھ کو کھلتی ہے کہ افسانے میں سب کے درد و غم کا ...

    مزید پڑھیے