توقیر زیدی کی غزل

    آہوں کے بسیرے ہیں ارمانوں کی بستی ہے

    آہوں کے بسیرے ہیں ارمانوں کی بستی ہے کہتے ہیں جسے ہستی ادھ سلجھی پہیلی ہے ناوک تری باتوں کے کچھ ایسے لگے دل پر اب سانس بھی لیتا ہوں تو روح نکلتی ہے افلاک پہ ہوتا ہے کس بات کا ہنگامہ بادل جو گرجتا ہے بجلی جو تڑپتی ہے ٹپکن کو وہی سمجھے زخموں سے جو کھیلا ہو کیا جانے مصیبت تو جو مجھ ...

    مزید پڑھیے

    سب یہاں دھوکہ ہے ہم تم کچھ نہیں

    سب یہاں دھوکہ ہے ہم تم کچھ نہیں زندگی میں ہیں سبھی غم کچھ نہیں کھیلتے ہیں کرب کے طوفان سے جانتے ہیں ہم تبسم کچھ نہیں خوں اگلتا زندگی کا ساز ہے جس کو کہتے ہیں ترنم کچھ نہیں ایک پل میں روح رخصت ہو گئی جسم کے اندر تصادم کچھ نہیں موت نے لوٹی ہے میری زندگی خوں کی موجوں میں تلاطم کچھ ...

    مزید پڑھیے

    زندگی تجھ سے بہت آج میں شرمندہ ہوں

    زندگی تجھ سے بہت آج میں شرمندہ ہوں موت ہر سانس میں آتی ہے مگر زندہ ہوں جب کوئی راگ میں چھیڑوں تو برستا ہے لہو جس کا ہر ساز شکستہ ہے وہ سازندہ ہوں جھوٹ ہوتا نہ جو سچ بھی نہ جہاں میں ہوتا تیرگی ساتھ ہے اس واسطے تابندہ ہوں مجھ کو آتا نہیں دنیا کی غلامی کرنا اپنے جذبات و خیالات کا ...

    مزید پڑھیے

    آہ زخمی ہے دل شکستہ ہے

    آہ زخمی ہے دل شکستہ ہے ہائے آنکھوں سے خوں برستا ہے ہو گئی ہیں لہو لہو سانسیں روح کو آ کے کوئی ڈستا ہے آ گیا ہے تو جا نہیں سکتا دل کی دنیا میں کوئی بستا ہے فرق کوئی نہیں ہے دونوں میں زندگی موت ہی کا رستہ ہے ساری دنیا میں مہنگا ہے پانی خوں زمانے میں آج سستا ہے لاش اپنی لئے بھٹکتا ...

    مزید پڑھیے

    پیکر خاکی یہ مانا موت سے دو چار ہے

    پیکر خاکی یہ مانا موت سے دو چار ہے زندگی تیرا مگر رستہ بہت دشوار ہے جو ہے مفلس وہ زمانے میں ذلیل و خوار ہے مال و زر ہو پاس جس کے صاحب کردار ہے رس رہا ہے خوں بدن سے بھیگتا ہے پیرہن زخم ہے میرے جگر کا یا کہ لالہ زار ہے خون دل سے میں نے سینچا ہے تجھے اے زندگی میرے ہی دم سے تو یہ چہرا ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں تیری نور سحر چھوڑ جاؤں گا

    آنکھوں میں تیری نور سحر چھوڑ جاؤں گا میں ظلمتوں میں شمس و قمر چھوڑ جاؤں گا مجھ کو تلاش کرتی رہے تجھ میں کائنات یادوں کا اپنی ایسا اثر چھوڑ جاؤں گا دیکھے گا تو ہر ایک کو میری نگاہ سے تیری نظر میں اپنی نظر چھوڑ جاؤں گا مجھ کو نہ کر سکے گا فراموش تو کبھی جینے کا میں تو مر کے ہنر ...

    مزید پڑھیے

    فضا میں زہر گھولا ہم نے خود اب دم نکلتا ہے

    فضا میں زہر گھولا ہم نے خود اب دم نکلتا ہے اجل کا پیرہن اوڑھے ہر اک موسم نکلتا ہے بھٹکتے کیوں ہیں مرہم کے لئے ہم دشت و صحرا میں ہمارے زخم کے اندر ہی سے مرہم نکلتا ہے ہمارے جسم کے اندر بسے ہیں سیکڑوں عالم ہر اک عالم کے اندر اک نیا عالم نکلتا ہے ہماری کامرانی نے کیا سورج کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    لمحات غم عشق کے بے باک بہت تھے

    لمحات غم عشق کے بے باک بہت تھے قصے میری چاہت کے خطرناک بہت تھے میں خون کے دھاگوں سے انہیں سی نہیں پایا زخموں کے گریبان مرے چاک بہت تھے آئی ہے بلا ایک فلک سے گمان تھا جب غور کیا میں نے تو افلاک بہت تھے آ جاتا ہے خود موت کو رہ رہ کے پسینہ تیور میری ہستی کے غضب ناک بہت تھے دنیا تو ...

    مزید پڑھیے