آہوں کے بسیرے ہیں ارمانوں کی بستی ہے
آہوں کے بسیرے ہیں ارمانوں کی بستی ہے کہتے ہیں جسے ہستی ادھ سلجھی پہیلی ہے ناوک تری باتوں کے کچھ ایسے لگے دل پر اب سانس بھی لیتا ہوں تو روح نکلتی ہے افلاک پہ ہوتا ہے کس بات کا ہنگامہ بادل جو گرجتا ہے بجلی جو تڑپتی ہے ٹپکن کو وہی سمجھے زخموں سے جو کھیلا ہو کیا جانے مصیبت تو جو مجھ ...