Tarkash Pradeep

ترکش پردیپ

ترکش پردیپ کی غزل

    اپنے دم سے گزر اوقات نہیں کرتا میں

    اپنے دم سے گزر اوقات نہیں کرتا میں کیسے کہہ دوں کہ غلط بات نہیں کرتا میں شام ہوتے ہی مرے گھر میں سحر ہوتی ہے رات بھی ہوتی ہے پر رات نہیں کرتا میں آج پھر خود سے خفا ہوں تو یہی کرتا ہوں آج پھر خود سے کوئی بات نہیں کرتا میں صرف اک بات ہی سے بات بڑھی ہے اتنی سوچتا ہوں کہ ملاقات نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تو میرا دوست مرا یار ہے نہیں ہے کیا

    تو میرا دوست مرا یار ہے نہیں ہے کیا ترے بھی دل میں بہت پیار ہے نہیں ہے کیا ذرا سی بات پہ میں تم سے روٹھ جاتا ہوں یہ میرے عشق کا اظہار ہے نہیں ہے کیا میں اپنے آپ سے تھوڑا بہت متأثر ہوں یہ میری ذات کو آزار ہے نہیں ہے کیا یوں اپنے آپ کو برباد کرتا ہے کوئی اے میرے دل تو سمجھ دار ہے ...

    مزید پڑھیے

    کرتے ہوئے طواف خیالات یار میں

    کرتے ہوئے طواف خیالات یار میں پھر آ گیا ہوں ضبط کی دنیا کے پار میں دنیا کو دکھ رہی ہے تو زندہ دلی مری پتھر پہ سر پٹکتا ہوا آبشار میں چالاکیاں دھری کی دھری رہ گئیں مری خوب اس کے آگے ہو رہا تھا ہوشیار میں یوں تو ذرا سی بات ہے پر بات ہے بڑی تو میرا غم گسار ترا غم گسار میں کل تھا جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2