آب در آب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں

آب در آب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں
تشنہ لب خواب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں


دشت احساس تری پیاس سے میں ہار گیا
ورنہ سیلاب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں


جانتے ہیں کہ مجھے نیند نہیں آتی ہے
پھر بھی کچھ خواب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں


یہ بتاتے ہیں کہاں بیٹھنا اٹھنا ہے کہاں
میرے آداب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں


اے سمندر میں بچائے ہوئے پھرتا ہوں تجھے
تیرے گرداب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں


اک سیہ رات تعاقب میں لگی رہتی ہے
نجم و مہتاب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں


سچ تو یہ ہے کہ نہیں ایک بھی سچا ان میں
جتنے القاب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں


میں ہوں بنیاد کا پتھر تجھے معلوم نہیں
طاق و محراب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں


کون سمجھے گا ان اشکوں کی عبارت طارقؔ
جن کے اعراب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں