برسات کی خشک شام
سنہرے سبز پتے سرمئی نیلا سا نارنجی بہ مائل سرخ رنگ آسماں خوشبو ہوا میں بھیگی سوندھی سی ابھی سورج ڈھلا ہی ہے خنک کمرے کی ساری کھڑکیوں کو بند کر کے جھانکنا شیشوں کے اندر سے خوش آگیں مشغلہ ہے
ممتاز خاتون فکشن نگار اور شاعرہ۔ مرد اساس سماج میں نئی عورت کے مسائل کے تخلیقی بیان کے لیے جانی جاتی ہیں۔
Prominent fiction writer and poet; known for her portrayal of women’s predicament in a male-dominated society.
سنہرے سبز پتے سرمئی نیلا سا نارنجی بہ مائل سرخ رنگ آسماں خوشبو ہوا میں بھیگی سوندھی سی ابھی سورج ڈھلا ہی ہے خنک کمرے کی ساری کھڑکیوں کو بند کر کے جھانکنا شیشوں کے اندر سے خوش آگیں مشغلہ ہے
دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر شکستہ پرسی نا امید اشک آنکھوں میں بھر کر اس طرح ساکت نہ بیٹھو اک جگہ پر کانچ کو پتھر کی سنگت میں ہی رہنا ہو تو اک رستہ یہ ہے وہ فاصلوں کو درمیاں رکھے سنو یہ زیست ایسی شے نہیں مل پائے گی پھر دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر چلو ہلکے ...
یہ سرمئی بادلوں کے سائے یہ شام کی تازہ تازہ سی رت یہ گاڑیوں کی کئی قطاریں یہ باغ میں سیر کرتے جوڑے یہ بچوں کے قہقہے سریلے وہ دور سے کوکتی کویلیا یہ عکس پانی میں بجلیوں کا چہار جانب ہے شادمانی مگر میں ہوں بے قرار مضطر نہیں ہے اس شہر میں مرا گھر
میڈیٹیشن کچھ نہ سوچوں میں کچھ نہیں سوچوں یوں ہی کھڑکی سے شام کو دیکھوں پر سکوں آسماں خموش درخت سرمئی روشنی ہوا یہ سکوں اپنی نس نس میں منتقل کر لوں دل کی دھڑکن کو روک دوں کچھ پل ایک دفعہ پلک نہیں جھپکوں یوں ہی بیٹھی رہوں جو بے جنبش روح پھر رب سے بات کرتی ہے کتنے ہی کام ساتھ کرتی ...
منہ بسورے یہ شام کھڑکی پر آن بیٹھی ہے دوپہر ہی سے دل کہ جیسے خزاں زدہ پتہ ٹوٹنے کو ہے کوئی بات کرو
محبوب کی مانند اٹھلائے معشوق کی صورت شرمائے ہریالی کا آنچل اوڑھے ہر شاخ ہوا میں رقصاں ہے میں پیار بھری نظروں سے انہیں مسکاتی دیکھے جاتی ہوں شاموں میں پیڑوں کو تکنا ہے میری نظر کی عیاشی