Tarannum Riyaz

ترنم ریاض

ممتاز خاتون فکشن نگار اور شاعرہ۔ مرد اساس سماج میں نئی عورت کے مسائل کے تخلیقی بیان کے لیے جانی جاتی ہیں۔

Prominent fiction writer and poet; known for her portrayal of women’s predicament in a male-dominated society.

ترنم ریاض کی نظم

    پتوں کے سائے

    شام کے ڈھلتے اترنے کے لئے کوشاں ہوا کرتی ہے جب جب مخملیں شب باغ کے اطراف پھیلے سب گھروں کی بتیاں جلتی ہیں اک کے بعد اک اک ایسے میں پتوں کے سائے کھڑکیوں کے لمبے شیشوں پر سمیٹے اپنا سارا حسن مجھ کو دیکھ کر گویا خوشی سے مسکراتے ہیں جہان دل سجاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    چپکے چپکے رویا جائے

    شام بجھی سی پنچھی چپ سینے کے اندر سناٹا اور روح میں نغمے غم آگیں دل کے سب زخموں کو اشکوں سے دھویا جائے کچھ لمحوں کو چپکے چپکے رویا جائے

    مزید پڑھیے

    شام کا سحر

    ابھی پرچھائیاں اونچے درختوں کی جدا لگتی ہیں رنگ آسماں سے ذرا پہلے گیا ہے اک پرندہ باغ کی جانب ادھر سے آنے والے ایک طیارے کی رنگیں بتیاں روشن نہیں اتنی وہ نکلی ہیں سبھی چمگادڑیں اپنے ٹھکانوں سے بڑا مبہم سا آیا ہے نظر زہرا فلک کے بیچ ٹی کوزی کے نیچے ہے گرم اب بھی بچا پانی کسی نے مجھ ...

    مزید پڑھیے

    ہزار شعر

    شام تجھ پر ہزار شعر کہوں دل کو پھر بھی قرار آتا نہیں یہ ترا حسن یہ حلیمی تری تیری خاموشیاں یہ معنی خیز دن سمیٹے تو اپنے آنچل میں کیسے پل پل بکھیر دیتی ہے رنگ اور اندھیرے میں ڈوب جانے کو تیرا کچھ ہی گھڑی کا نرم وجود خوشبوئیں گھولتا فضاؤں میں دوش پر یوں اڑے ہواؤں کے جیسے تجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    شفق گوں سبزہ

    بڑی تکلیف تھی تحریر کو منزل پہ لانے میں تناؤ کا عجب اک جال سا پھیلا تھا چہرے پر کھنچے تھے ابروؤں میں سیدھے خط پیشانی پر آڑی لکیریں تھیں خمیدہ ہوتے گاہے لب کبھی مژگاں الجھ پڑتی تھیں باہم گرا کر پردۂ چشم اپنی آنکھوں پر غرق ہو جاتی سوچوں میں کہ افسانے میں دیوانے کا کیا انجام ...

    مزید پڑھیے

    شام کی بارش

    کون سے کوہ کی آڑ میں لی خورشید نے جا کر آج پناہ چو طرفہ یلغار سی کی ہے ابر نے بھی تا حد نظر دھیمے چلتے کالے بادل اڑتی سی اجلی بدلی رقصاں رقصاں جھلک دکھا کر رہ جاتی ہے برق کبھی پتوں کے جھرمٹ میں سائے کجلائے شرمائے سے پھول حلیمی سے سر خم اور کلیاں کچھ شرمائی سیں دانستہ بارش میں اڑتے ...

    مزید پڑھیے

    شرمیلی خاموشی

    شام کی شرمیلی چپ کو روح میں محسوس کرتے کام میں مصروف ہیں ہم دوپہر سے دل کی آنکھیں دیکھتی ہیں گہری گہری سبز شاخوں کو جو بیٹھی ہیں خموشی سے کئے خم گردنیں اپنی کسی دلہن کی صورت سر پہ اوڑھے آسماں کی سرمئی چنری ستارے جس میں ٹانکے جا رہے ہیں ہم اپنے اس تصور پر خود ہی مسکا رہے ہیں

    مزید پڑھیے

    آبائی گھر

    ماتمی شام اتر آئی ہے پھر بام تلک گھر کی تنہائی کو بہلائے کوئی کیسے بھلا اپنے خوابوں کے تعاقب میں گئے اس کے مکیں منتظر ہیں یہ نگاہیں کہ ہیں بجھتے سے دئے راہ تکنے کے لئے کوئی بچے گا کب تک پھر یہ دیواریں بھی ڈھہ جائیں گی

    مزید پڑھیے

    شام‌ تنہا

    شام تنہا یوں ہی چپ چاپ اندھیرے لے کر گھر کے اندر ہی چلی آئی ہے بتیاں گل کئے ہم بیٹھے رہے شام کو اور کچھ اداس کریں رنج اور غم کو پاس پاس کریں

    مزید پڑھیے

    ضروری بات

    نیلی نیلی شام کی خاموشیوں کے بیچ کیا سرگوشیاں سی کرتے ہیں شاخوں سے یہ پتے جھکا ہے گل کلی کے رخ پہ ساری خوشبوئیں لے کر بکھیرے زلف سورج کی طرف چل دی ہے اک بدلی ہوا اٹھکھیلیاں کرتی ہے رک رک کر درختوں سے زمیں کو آسماں نے لے لیا اپنی پناہوں میں تم آ جاتے اگر گھر آج جلدی مجھ کو بھی تم سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2