Tanvir Dehlvi

تنویر دہلوی

تنویر دہلوی کی غزل

    شوخیٔ گرمئی رفتار دکھاتے نہ چلو

    شوخیٔ گرمئی رفتار دکھاتے نہ چلو فتنۂ حشر کو سیماب بتاتے نہ چلو غیر بھی کرنے لگے نقش قدم پر سجدے نقش حب دل پہ رقیبوں کے بٹھاتے نہ چلو چلتے چلتے تو نہ غیروں سے ہنسو بہر خدا خاک میں اشک نمط مجھ کو ملاتے نہ چلو نگہ گرم سے گلشن میں نہ دیکھو گل کو آتش رشک سے بلبل کو جلاتے نہ چلو اس کے ...

    مزید پڑھیے

    دوست سے خواہ وہ عدو سے ملے

    دوست سے خواہ وہ عدو سے ملے نہ ہوئے ہم تو پھر کسو سے ملے ساتھ اس کے پلے ہیں لاکھوں دل کیوں نہ رنگ حنا لہو سے ملے واہ یہ شکل یہ دغا بازی دل کسو کا لیا کسو سے ملے ویسے ہی حسرتوں کے خون ہوئے ان سے تھے جیسے آرزو سے ملے لو گئے تھے نماز کو تنویرؔ مے کدہ کے ہیں روبرو سے ملے

    مزید پڑھیے

    انہیں باتوں سے اس کی خو بگڑی

    انہیں باتوں سے اس کی خو بگڑی کبھو ہم سے بنی کبھو بگڑی کیوں گلا غیر کا کیا جائے مفت اس سے پئے عدو بگڑی ہجر میں ہار کر جو صبر کیا وصل کی ہم سے آرزو بگڑی چین سے دل تو اس کے ساتھ گیا جان آفت رسیدہ تو بگڑی قدر گوہر ہے آب سے تنویرؔ پھر رہا کیا جب آبرو بگڑی

    مزید پڑھیے

    توڑنے گل کو جو وہ شوخ طرحدار جھکا

    توڑنے گل کو جو وہ شوخ طرحدار جھکا ان کے قدموں پہ سر بلبل گلزار جھکا دیکھ لی تیرے نشے میں جو گلابی آنکھیں آنکھ کو شرم سے لے نرگس بیمار جھکا اس کی پاپوش کی چمکی جو دم صبح کرن چومنے اس کے قدم مطلع انوار جھکا دور ساقی میں مرے جھکنے لگا ایک پہ ایک جام ساغر پہ ہے ساغر پہ ہے وہ یار ...

    مزید پڑھیے

    وہ سر شام گئے ہجر کی ہے رات شروع

    وہ سر شام گئے ہجر کی ہے رات شروع اشک جاری ہیں ہوا موسم برسات شروع جذبۂ دل نے مرے کچھ تو کری ہے تاثیر پھر ہوئے ان کے جو الطاف و عنایات شروع مجھ کو دکھلاؤ نہ تم رنگ حنا اس کو جلاؤ بھیجنی جس نے کری تم کو یہ سوغات شروع کبھو وحشت کبھو شدت کبھو غم کی کثرت کہ جو پہلے تھے ہوئے پھر وہ ہی ...

    مزید پڑھیے

    جا نہ تو حسرت دیدار ابھی باقی ہے

    جا نہ تو حسرت دیدار ابھی باقی ہے اک رمق مجھ میں دم یار ابھی باقی ہے کیوں نہ دیکھوں انہیں نظروں سے خریدار کی میں حسن کی گرمئ بازار ابھی باقی ہے سب ہوئے حسرت و ارماں تو شب غم میں شہید رہ گیا اک یہ گنہ گار ابھی باقی ہے مل کے بھی مجھ سے کھٹکتے رہے ہر بات پہ وہ خار نکلا خلش خار ابھی ...

    مزید پڑھیے

    نہ سنی پر نہ سنی اس نے دل زار کی عرض

    نہ سنی پر نہ سنی اس نے دل زار کی عرض کون سنتا ہے بھلا ایسے گنہ گار کی عرض چلو آہستہ کہ ہوتی ہے قیامت برپا فتنۂ حشر نے یہ اس سے کئی بار کی عرض جنبش لب ہے دم نزع یہ کچھ کہتا ہے سن تو لو اپنے ذرا مائل گفتار کی عرض ذکر اغیار سے چھڑکا کئے زخموں پہ نمک دم کشتن نہ سنی کشتۂ تلوار کی ...

    مزید پڑھیے

    ہیں شام ہی سے رنج و قلق جان پر اب تو

    ہیں شام ہی سے رنج و قلق جان پر اب تو ہم کو نہیں امید کہ پکڑیں سحر اب تو دیوانہ کوئی ہوئے تو ہو اس کی بلا سے اپنے ہی پری پن پہ پڑی ہے نظر اب تو سائے سے چہک جاتے تھے یا پھرتے ہو شب بھر واللہ کہ تم ہو گئے کتنے نڈر اب تو جاں کو تو خبر بھی نہیں اوپر ہی سے اوپر دل لے گئی اس شوخ کی نیچی نظر ...

    مزید پڑھیے

    راہی طرف ملک عدم ہوئی چکا تھا

    راہی طرف ملک عدم ہوئی چکا تھا تو آ گیا میں ورنہ صنم ہوئی چکا تھا بٹھلاتی نزاکت نہ اسے گر دم رفتار پامال یہ دل زیر قدم ہوئی چکا تھا سرگرم سخن مجھ سے جو وہ آ کے نہ ہوتا ٹھنڈا میں تہ تیغ ستم ہوئی چکا تھا دیکھا بت نو خط نے جو مجھ کو تو کیا چاک نامہ تو رقیبوں کو رقم ہوئی چکا تھا وہ ...

    مزید پڑھیے

    جو کہا اس نے وہ کئے ہی بنی

    جو کہا اس نے وہ کئے ہی بنی صوفیوں کو بھی مے پئے ہی بنی ایسی باتیں بنائیاں اس نے کچھ نہ بن آئی دل دیے ہی بنی اب بھی آ جائے اس تمنا میں پر نہ موئے ہجر میں جئے ہی بنی کافر عشق ہو گئی آخر ان بتوں کا کہا کئے ہی بنی تھا جو رسوائیوں کا ڈر ان کو جیب کے چاک کو لئے ہی بنی رات ساقی بغیر تھام ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2