Tanvir Dehlvi

تنویر دہلوی

تنویر دہلوی کی غزل

    محو دیدار یار ہوں چپ ہوں

    محو دیدار یار ہوں چپ ہوں اتنا بے اختیار ہوں چپ ہوں وہ رکھائی سے گھونٹتے ہیں گلا کیا کہوں بے قرار ہوں چپ ہوں راز دل گر کہوں تو حال کھلے جان و جی سے نثار ہوں چپ ہوں کون قاتل کے آگے دم مارے کیا کہوں دل فگار ہوں چپ ہوں دیکھتا یاد چشم میں تنویرؔ سیر لیل و نہار ہوں چپ ہوں

    مزید پڑھیے

    برق بیتاب ہے تم رخ کی چمک تو دیکھو

    برق بیتاب ہے تم رخ کی چمک تو دیکھو اپنی آنکھوں کی قسم نوک پلک تو دیکھو چشم میگوں کی قسم مست نگاہوں کی قسم دور ساغر کا مزا صبح تلک تو دیکھو شاخ گل کی ہے قسم میری رگ جاں کی قسم تم ذرا اپنی کمر کی یہ لچک تو دیکھو میرے زخموں کی قسم شور محبت کی قسم اپنے حسن نمک افشاں کا نمک تو ...

    مزید پڑھیے

    نکتہ چینی ہے اور آراستن دامن ہے

    نکتہ چینی ہے اور آراستن دامن ہے جامۂ یار میں عنقا شکن دامن ہے دامن گل سے بھی ہلکا وزن دامن ہے اس پہ بھی بار اسے ایک ایک شکن دامن ہے کسی بیکس کے لہو کے ہیں یہ چھینٹے قاتل گل حسرت سے جو پھولا چمن دامن ہے اس کا یہ کہنا کہ بس بس مرا دامن چھوڑو نقش سینے پہ وہ دل کش سخن دامن ہے تم نے ...

    مزید پڑھیے

    دل پریشاں ہی رہا دیر تلک گو بیٹھے

    دل پریشاں ہی رہا دیر تلک گو بیٹھے اپنی زلفوں کو بنایا ہی کئے وہ بیٹھے اپنی صورت پہ کہیں آپ نہ عاشق ہونا بے طرح دیکھتے ہو آئنہ تم تو بیٹھے زلف الجھی ہے تو شانے سے اسے سلجھا لو شام کا وقت ہے ہو کوستے کس کو بیٹھے جاؤں کیا ایک تو دربان ہے اور ایک رقیب جان لینے کو فرشتے ہیں وہاں دو ...

    مزید پڑھیے

    عید ہو جائے ابھی طالب دیداروں کو

    عید ہو جائے ابھی طالب دیداروں کو کھول دو زلف سے گر چاند سے رخساروں کو لے کے دل چین سے جا بیٹھے وہ گھر میں چھپ کے اب تو آنکھیں بھی ترسنے لگیں نظاروں کو پھل یہ قاتل کو دیا میری گراں جانی نے توڑ کر ڈھیر کیا سیکڑوں تلواروں کو عین الطاف ہے مذہب میں حسینوں کے ستم بدشگونی ہے انہیں ...

    مزید پڑھیے

    سر کاکل کو نہ او شوخ طرحدار تراش

    سر کاکل کو نہ او شوخ طرحدار تراش کاٹ کھائے گا یہ اڑ کر نہ سر مار تراش اب تو سر ہوتے ہیں دس بیس کے ہر روز قلم خوب یہ تو نے نکالی ہے جفا کار تراش خط تو یہ میں نے ہی لکھا تھا خطا‌ وار ہوں میں ہاتھ قاصد کے لئے تو نے ستم گار تراش ماہ نو چوم ہی لے اس کو فلک سے گر کر پھینک دیوے جو وہ ناخن ...

    مزید پڑھیے

    دل کو کیا یار کے پیکان لئے بیٹھے ہیں

    دل کو کیا یار کے پیکان لئے بیٹھے ہیں صاحب خانہ کو مہمان لئے بیٹھے ہیں شور کیونکر نہ لب زخم جگر سے اٹھے سنتے ہیں پھر وہ نمک دان لئے بیٹھے ہیں دم لبوں پر ہے یہاں شوق شہادت میرا گھر میں وہ خنجر بران لئے بیٹھے ہیں سوگ نے ان کے ہزاروں کو کیا سودائی وہ ابھی زلف پریشاں لئے بیٹھے ...

    مزید پڑھیے

    وہ کہہ تو گئے ہیں کہ ہم آویں گے سحر تک

    وہ کہہ تو گئے ہیں کہ ہم آویں گے سحر تک امید ہے جینے کی کسے چار پہر تک ظلمات و عدم میں نہ رہا فرق سر مو وہ زلف دوتا چھٹتے ہی پہونچے ہے کمر تک ہے روزن در دیدۂ خورشید قیامت وہ جھانکنے آئے تھے کہن روزن در تک کچھ کہہ دیں اشاروں ہی سے وہ منہ سے نہ بولیں وہ مانگیں تو ہم جان تلک دیں ...

    مزید پڑھیے

    نہ توڑ شیشوں کو او گل بدن تڑاق پڑاق

    نہ توڑ شیشوں کو او گل بدن تڑاق پڑاق یہ دل شکن ہے صدائے شکن تڑاق پڑاق برنگ غنچۂ گل چپ ہو کیوں جواب تو دو مرا سخن کا ہے یہ ہو سخن تڑاق پڑاق ابھی اٹھے ترا بیمار ناتواں غش سے جو دے تو بوسہ سیب ذقن تڑاق پڑاق ہزاروں شیشۂ دل کوہ غم پہ اے تنویرؔ مدام توڑے ہے چرخ کہن تڑاق پڑاق

    مزید پڑھیے

    ہو نہ کچھ اور اس آغاز کا انجام کہیں

    ہو نہ کچھ اور اس آغاز کا انجام کہیں ساقیا لب سے لگا دے تو لب جام کہیں وہ دل آرام جو پہلو میں نہیں ہے اپنے دل بیتاب کو آتا نہیں آرام کہیں صدمہ ہائے شب ہجراں سے گرا جاتا ہوں اے تمنائے شب وصل مجھے تھام کہیں شام سے ہوتی ہیں دل پر جو بلائیں نازل کھول بیٹھے نہ ہوں وہ زلف سیہ فام ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2