Tanveer Ahmad Alvi

تنویر احمد علوی

  • 1933 - 2013

تنویر احمد علوی کی غزل

    وہی جو راہ کا پتھر تھا بے تراش بھی تھا

    وہی جو راہ کا پتھر تھا بے تراش بھی تھا وہ خستہ جاں ہی کبھی آئینہ قماش بھی تھا لہو کے پھول رگ جاں میں جس سے کھلتے تھے وہی تو شیشۂ دل تھا کہ پاش پاش بھی تھا بکھر گئی ہیں جہاں ٹوٹ کر یہ چٹانیں یہیں تو پھول کوئی صاحب فراش بھی تھا اٹھائے پھرتا تھا جس کو صلیب کی صورت وہی وجود تو خود اس ...

    مزید پڑھیے

    فشار حسن سے آغوش تنگ مہکے ہے

    فشار حسن سے آغوش تنگ مہکے ہے صبا کے لمس سے پھولوں کا رنگ مہکے ہے ادائے نیم نگاہی بھی کیا قیامت ہے کہ بن کے پھول وہ زخم خدنگ مہکے ہے یہ وحشتیں بھی مری خوشبوؤں کا حصہ ہیں کہ مرے خون سے دامان سنگ مہکے ہے ادائے ناز بھی ہے حسن و اہتزاز کی بات کہ تار زلف نہیں انگ انگ مہکے ہے لہو کے ...

    مزید پڑھیے

    ابھی تو آنکھوں میں نا دیدہ خواب باقی ہیں

    ابھی تو آنکھوں میں نا دیدہ خواب باقی ہیں جو وقت لکھ نہیں پایا وہ باب باقی ہیں سزا جو اگلے صحیفوں میں تھی تمام ہوئی مگر صحیفۂ دل کے عذاب باقی ہیں کرو گے جمع بھلا کیسے دل کے شیشوں کو ابھی تو دشت فلک میں شہاب باقی ہیں اڑا کے لے گئی آندھی وہ حرف حرف کتاب جو صفحہ صفحہ ہیں دل کے سراب ...

    مزید پڑھیے

    دل کے بھولے ہوئے افسانے بہت یاد آئے

    دل کے بھولے ہوئے افسانے بہت یاد آئے زندگی تیرے صنم خانے بہت یاد آئے کوزۂ دل کی طرح پہلے انہیں توڑ دیا اب وہ ٹوٹے ہوئے پیمانے بہت یاد آئے وہ جو غیروں کی صلیبوں کو اٹھا لائے تھے خود مسیحا کو وہ دیوانے بہت یاد آئے جسم و جاں کے یہ صنم زاد الٰہی توبہ دل کے اجڑے ہوئے بت خانے بہت یاد ...

    مزید پڑھیے

    مل بھی جاتا جو کہیں آب بقا کیا کرتے

    مل بھی جاتا جو کہیں آب بقا کیا کرتے زندگی خود بھی تھی جینے کی سزا کیا کرتے سرحدیں وہ نہ سہی اپنی حدوں سے باہر جو بھی ممکن تھا کیا اس کے سوا کیا کرتے ہم سرابوں میں سدا پھول کھلاتے گزرے یہ بھی تھا آبلہ پائی کا صلا کیا کرتے جس کو موہوم لکیروں کا مرقع کہیے لوح دل پر تھا یہی نقش وفا ...

    مزید پڑھیے

    لمحہ در لمحہ گزرتا ہی چلا جاتا ہے

    لمحہ در لمحہ گزرتا ہی چلا جاتا ہے وقت خوشبو ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے آبگینوں کا شجر ہے کہ یہ احساس وجود جب بکھرتا ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے دل کا یہ شہر صدا اور یہ حسیں سناٹا وادئ جاں میں اترتا ہی چلا جاتا ہے اب یہ اشکوں کے مرقعے ہیں کہ سمجھتے ہیں نہیں نقش پتھر پہ سنورتا ہی چلا ...

    مزید پڑھیے

    مری غزل جو نئے ساز سے عبارت ہے

    مری غزل جو نئے ساز سے عبارت ہے مرے نفس مری آواز سے عبارت ہے کھٹک رہا ہے جو نشتر جراحت دل میں فریب نرگس طناز سے عبارت ہے حقیقتوں کو فسانہ بنا دیا جس نے یہ سحر بھی ترے اعجاز سے عبارت ہے قفس بھی جیسے دریچہ ہے دل کے زنداں کا نفس بھی لذت پرواز سے عبارت ہے مرے لہو کی یہ گردش اسی کا ...

    مزید پڑھیے

    بزم جاں پھر نگۂ توبہ شکن مانگے ہے

    بزم جاں پھر نگۂ توبہ شکن مانگے ہے لمس شعلے کا تو خوشبو کا بدن مانگے ہے قد و گیسو کی شریعت کا وہ منکر بھی نہیں اور پھر اپنے لیے دار و رسن مانگے ہے رقص کاکل کے تصور کی یہ شیریں ساعت شب کے پھولوں سے مہکتا ہوا بن مانگے ہے ٹوٹتے ہیں تو بکھر جاتے ہیں مٹی کے حروف زندگی جن سے چراغوں کا ...

    مزید پڑھیے

    کمند حلقۂ گفتار توڑ دی میں نے

    کمند حلقۂ گفتار توڑ دی میں نے کہ مہر دست قلم کار توڑ دی میں نے روایتوں کو صلیبوں سے کر دیا آزاد یہی رسن تو سر دار توڑ دی میں نے یہ میرے ہاتھ ہیں اور بے شناخت اب بھی نہیں یہ اور بات ہے تلوار توڑ دی میں نے سفینے ہی کو میں شعلہ دکھا کے نکلا تھا جو اپنے ہاتھ سے پتوار توڑ دی میں ...

    مزید پڑھیے

    دل ہے پلکوں میں سمٹ آتا ہے آنسو کی طرح

    دل ہے پلکوں میں سمٹ آتا ہے آنسو کی طرح ریشمی رات کی بھیگی ہوئی خوشبو کی طرح زندگی آج ہے یادوں کے تعاقب میں رواں ریت کے ٹیلوں پہ گرد رم آہو کی طرح آن کی آن میں تاریخ بدل جاتی ہے شکن زلف کی صورت خم ابرو کی طرح تولنے کے لئے پھولوں کی ترازو بھی تو ہو فکر و احساس بھی تل جاتے ہیں خوشبو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2