Tanveer Ahmad Alvi

تنویر احمد علوی

  • 1933 - 2013

تنویر احمد علوی کی غزل

    کیا ضروری ہے کوئی بے سبب آزار بھی ہو

    کیا ضروری ہے کوئی بے سبب آزار بھی ہو سنگ اپنے لیے شیشہ کا طلب گار بھی ہو دلبری حسن کا شیوہ ہے مگر کیا کیجے اب یہ لازم تو نہیں حسن وفادار بھی ہو زخم جاں وقت کے کانٹوں سے بھی سل سکتا ہے کیا ضروری ہے کہ ریشم کا کوئی تار بھی ہو فاصلہ رکھیے دلوں میں مگر اتنا بھی نہیں درمیاں جیسے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    ذہن زندہ ہے مگر اپنے سوالات کے ساتھ

    ذہن زندہ ہے مگر اپنے سوالات کے ساتھ کتنے الجھاؤ ہیں زنجیر روایات کے ساتھ کون دیکھے گا یہاں دن کے اجالوں کا ستم یہ ستارے تو چلے جائیں گے سب رات کے ساتھ جانے کس موڑ پہ منزل کا پتہ بھول گئے ہم کہ چلتے ہی رہے گردش حالات کے ساتھ وقت کرتا ہے بھلا کس سے یہاں حسن سلوک وہ بھی اس دور میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ بات دشت وفا کی نہیں چمن کی ہے

    یہ بات دشت وفا کی نہیں چمن کی ہے چمن کی بات بھی زخموں کے پیرہن کی ہے ہوائے شہر بہت اجنبی سہی لیکن یہ اس میں بوئے وفا تیری انجمن کی ہے میں بت تراش ہوں پتھر سے کام ہے مجھ کو مگر یہ طرز ادا تیرے بانکپن کی ہے لپک تو شعلہ کی فطرت ہے پھر بھی کیا کیجے کہ اس میں پھول سی رنگت تیرے بدن کی ...

    مزید پڑھیے

    خواب تو خواب ہے تعبیر بدل جاتی ہے

    خواب تو خواب ہے تعبیر بدل جاتی ہے دل کے آئینہ میں تصویر بدل جاتی ہے اب صلیبوں پہ کہاں گل شدہ شمعوں کی قطار آن کی آن میں تحریر بدل جاتی ہے سر تو بدلے ہیں نہ بدلیں گے مگر وقت کے ساتھ ظلم کے ہاتھ میں شمشیر بدل جاتی ہے روز بنتا ہے کوئی آگ کے تیروں کا ہدف ریت پر خون کی زنجیر بدل جاتی ...

    مزید پڑھیے

    درد کی لے کو بڑھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

    درد کی لے کو بڑھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی اور اس دل کو دکھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی میرے احساس کی یہ باڑھ تو رکنے سے رہی مجھ کو دیوانہ بنا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی کرب تنہائی کا نشتر رگ جاں میں رکھ دو مجھ کو احساس دلا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی حوصلہ جینے کا ہوتا ہے پر اتنا بھی ...

    مزید پڑھیے

    وہ رقص کہاں اور وہ تب و تاب کہاں ہے

    وہ رقص کہاں اور وہ تب و تاب کہاں ہے وہ سجدۂ شوق اور وہ محراب کہاں ہے ہے آبلہ پائی ہی ترا نقش کف پا صحرائے لق و دق ہے یہاں آب کہاں ہے اوراق دل و جاں میں ہیں کچھ داغ ہی باقی وہ عشق و عقیدت کا حسیں باب کہاں ہے اک اشک ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے پلکوں پہ سجایا ہوا وہ خواب کہاں ہے اب ...

    مزید پڑھیے

    عجیب شخص ہے پتھر سے پر بناتا ہے

    عجیب شخص ہے پتھر سے پر بناتا ہے دیار سنگ میں شیشہ کا گھر بناتا ہے جو زخم پھول کی پتی کا سہہ سکا نہ کبھی اس آبلہ کو وہ اپنی سپر بناتا ہے فضا کا بوجھ سمجھتا ہے چاند سورج کو وہ گردنوں پہ سجانے کو سر بناتا ہے جہاں سے قافلۂ وقت راہ بھولا تھا انہیں سرابوں میں وہ رہگزر بناتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2