وہی جو راہ کا پتھر تھا بے تراش بھی تھا
وہی جو راہ کا پتھر تھا بے تراش بھی تھا وہ خستہ جاں ہی کبھی آئینہ قماش بھی تھا لہو کے پھول رگ جاں میں جس سے کھلتے تھے وہی تو شیشۂ دل تھا کہ پاش پاش بھی تھا بکھر گئی ہیں جہاں ٹوٹ کر یہ چٹانیں یہیں تو پھول کوئی صاحب فراش بھی تھا اٹھائے پھرتا تھا جس کو صلیب کی صورت وہی وجود تو خود اس ...