Tabassum Kashmiri

تبسم کاشمیری

ممتاز نقاد، محقق شاعر اور ادبی مورخ

تبسم کاشمیری کی نظم

    وہ ساحل شب پہ سو گئی تھی

    نیلے سایوں کی رات تھی وہ وہ ساحل شب پہ سو گئی تھی وہ نیلے سائے ہوا کے چہرے پہ اور بدن پہ اور اس کی آنکھوں میں سو رہے تھے اور اس کے ہونٹوں پہ سرخ خوشبو کی دھوپ اس شب چمک رہی تھی وہ ساحل شب وہ نیلے پانی وہ آسمانوں سے سرخ پتوں کی تیز بارش وہ تیز بارش بدن پہ اس کے گلاب موسم کے ان دنوں ...

    مزید پڑھیے

    کڑوے تلخ کسیلے ذائقے

    ہم شوریدہ کڑوے تلخ کسیلے ذائقے رات کی پر شہوت آنکھوں سے ٹپکے تازہ قطرے شام کے کالے سیاہ ماتھے کی ننگی مخروطی خارش دوپہروں کے جلتے گوشت کی تیز بساند رات کی کالی ران سے بہتا اندھا لاوا خلیج کی گہرائی سے باہر آتا قدم قدم پر خوف تباہی دہشت پیدا کرتا بکھر رہا ہے راتوں کی سیال ملامت ...

    مزید پڑھیے

    جسم کے اندر جسم کے باہر

    میں نے زمیں کی تپتی رگوں پہ ہاتھ دھرے ہیں میں نے زمیں کی تپتی رگوں سے تپتے لہو کو ابلتے دیکھا ہے ان رستوں پہ ان گلیوں پہ پتھر جیسی سخت ہوا کے سرخ دھماکے دیکھے ہیں رات کی متورم گھڑیوں میں زرد مکانوں کے صحنوں میں لہو کو گرتے دیکھا ہے قطرہ قطرہ قطرہ قطرہ قطرہ بنتے بنتے ایک سمندر اک ...

    مزید پڑھیے

    زوال کی آخری چیخ

    چھٹی بار جب میں نے دروازہ کھولا تو اک چیخ میرے بدن کے مساموں سے چمٹی بدن کے اندھیروں میں اتری مرا جسم اس چیخ کے تند پنجوں سے جھلسی ہوئی بے کراں چیخ تھا میں لرزتا ہوا کہنہ گنبد سے نکلا اور چیخ میرے بدن سے سیاہ گھاس کی طرح نکلی بدن کے کروڑوں مساموں کے منہ پر سیاہ چیخ کا سرخ جنگل اگا ...

    مزید پڑھیے

    ایک رات سفید گلابوں والے تالاب کے پاس

    وہ ایک شب تھی سفید گلابوں والے تالاب کے بالکل نزدیک بادلوں کی پہلی آہٹ پر اس نے رکھ دیے ہونٹ ہونٹوں پر موسیقی کی تتلی گیت گانے لگی اس کے سانسوں کے آس پاس اس کی خوشبوؤں کے گھنگھرو بج رہے تھے اس شب ہوا کی سفید گلابی چھتوں پر وہ امڈ رہی تھی ایک تیز سمندری لہر کی طرح وہ جسم پر نقش ہو ...

    مزید پڑھیے

    خواہشیں اور خون

    میں نے آشاؤں کی آنکھیں چہرے ہونٹ اور نیلے بازو نوچ لیے ہیں ان کے گرم لہو سے میں نے اپنے ہاتھ بھگو ڈالے ہیں دوپہروں کی تپتی دھوپ میں خواہشیں اپنے جسم اٹھا کر چوبی کھڑکی کے شیشوں سے اکثر جھانکتی رہتی ہیں آنکھیں ہونٹ اور زخمی بازو جانے کیا کچھ مجھ سے کہتے رہتے ہیں جانے کیا کچھ ان سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2