Tabassum Kashmiri

تبسم کاشمیری

ممتاز نقاد، محقق شاعر اور ادبی مورخ

تبسم کاشمیری کی نظم

    اداسیوں کی رت

    اداسیوں کی رت بھی کیا عجیب ہے کوئی نہ میرے پاس ہے تم تو میرے پاس ہو مگر کہاں ہوا کی خوشبوؤں میں سبز روشنی کی دھول میں دل میں بجتی تالیوں کے پاس اداسیوں کے زرد بال جل اٹھے تھے اس گھڑی تمہاری سرد یاد کے سفید پھول کھل اٹھے تھے جس گھڑی نظر میں اک سفید برف گر رہی تھی دور تک سرخ بیلیں کھل ...

    مزید پڑھیے

    انکار کی سرحد پر

    اگر مجھ سے ملنا ہے آؤ ملو تم مگر یاد رکھنا میں اقرار کی منزلیں راستے ہی میں چھوڑ آیا ہوں اب مجھ سے ملنا ہے تم کو تو انکار کی سرحدوں پہ ملو جھینگروں مکڑیوں کے جنازے میں رستے پہ چھوڑ آیا ہوں پرانی کتھائیں مجھے کھینچتی ہیں زمیں کا زوال آج زنجیر پا بن رہا ہے خس و خاک کے سارے رشتے میں ...

    مزید پڑھیے

    ایک دھندلی یاد

    بارشیں اس کے بدن پر زور سے گرتی رہیں اور وہ بھیگی قبا میں دیر تک چلتی رہی سرخ تھا اس کا بدن اور سرخ تھی اس کی قبا سرخ تھی اس دم ہوا بارشوں میں جنگلوں کے درمیاں چلتے ہو بھیگتے چہرے کو یا اس کی قبا کو دیکھتے بانس کے گنجان رستوں پہ کبھی بڑھتے ہوئے اس کی بھیگی آنکھ میں کھلتی دھنک تکتے ...

    مزید پڑھیے

    ایک لمبی کافر لڑکی

    وادی کی سب سے لمبی لڑکی کے جسم کے سب مساموں سے ریشم سے زیادہ ملائم اور نرم خموشی میں گھنٹیوں کی آوازیں آ رہی تھیں برکھا کی اس نم زدہ رات میں جب اس کے جسم پہ قوس قزح چمکی تو گھنٹیاں تیز تیز بجنے لگیں مرے کانوں میں آہٹیں آ رہی تھیں دھند سے بھی نرم اور ملائم بادلوں کی دبے پاؤں ...

    مزید پڑھیے

    ندامت ہی ندامت

    رات کے معدے میں کاری زہر ہے جلتا ہے جس سے تن بدن میرا میں کب سے چیختا ہوں درد سے چلاتا پھرتا ہوں تشدد خوف دہشت بربریت اور مغلظ رات کی رانوں میں شہوت ایک کالا پھول بنتی ہے شہوت جاگتی ہے گھورتی ہے سرخ آنکھوں سے وہ چہرے نوچتی کھاتی ہے اپنے تند جبڑوں سے یہ کیسا زہر ہے جو پھیلتا جاتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    اے کے شیخ کے پیٹ کا کتا

    رات بھر کتا اس کے پیٹ میں بھونک رہا تھا کیسی کیسی آوازیں تھیں بھوں بھوں بھوں بھوں ووں ووں ووں ووں سارا کمرہ اس کی پاگل آوازوں سے ووں ووں کرتا ہانپ رہا تھا گز بھر لمبی سرخ زباں بھی اس کے حلق سے نکل رہی تھی رالیں منہ سے ٹپک رہی تھیں ہلتے کان اور ہلتی دم سے کتا بھوں بھوں بھوں بھوں ...

    مزید پڑھیے

    زوال کی آخری ہچکیاں

    زوال کے آسمانوں میں لڑکھڑاتے اندھیرے خلاؤں کی دنیاؤں میں معلق ہوتے اندھیرے شہروں کے برجوں کی گمنام فصیلوں پر گرتے تشدد سے آباد انسانی بستیوں کے چہروں سے لپٹتے اور انسانی وجود کی دھجیاں دیکھ کر چیختے روتے کتنے ہزار سال بیت گئے ہیں کتنے ہزار سالوں سے زوال کی چیخوں کو سنتے ...

    مزید پڑھیے

    اس عہد کی بے حس ساعتوں کے نام

    یہاں اب ایک تارہ زرد تارہ بھی نہیں باقی یہاں اب آسماں کے چیتھڑوں کی پھڑپھڑاہٹ بھی نہیں باقی یہاں پر سارے سورج تارے سورج تیرتے افلاک سے گر کر کسی پاتال میں گم ہیں یہاں اب سارے سیاروں کی گردش رک گئی ہے یہاں اب روشنی ہے اور نہ آوازوں کی لرزش ہے نہ جسموں میں ہی حرکت ہے یہاں پر اب ...

    مزید پڑھیے

    پچھلے جنم کی ایک نظم

    مجھے لگتا ہے زمین کے کسی گمنام منطقے میں ہم کبھی ساتھ ساتھ رہتے تھے مجھے اب تمہارا نام یاد نہیں تمہاری شکل بھی یاد نہیں مگر یہ لگتا ہے کہ شاید کئی صدیاں پہلے کسی پچھلے جنم کی سیڑھیوں پر ہم ساتھ ساتھ بیٹھتے تھے وہ سیڑھیاں کہاں تھیں اور پچھلا جنم کہاں ہوا تھا مجھے تو یاد نہیں شاید ...

    مزید پڑھیے

    اس روز تم کہاں تھے

    جس روز دھوپ نکلی اور لوگ اپنے اپنے ٹھنڈے گھروں سے باہر ہاتھوں میں ڈالے سورج کی سمت نکلے اس روز تم کہاں تھے جس روز دھوپ نکلی اور پھول بھی کھلے تھے تھے سبز باغ روشن اشجار خوش ہوئے تھے پتوں کی سبز خوشبو جب سب گھروں میں آئی اس روز تم کہاں تھے جس روز آسماں پر منظر چمک رہے تھے سورج کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2