Tabassum Kashmiri

تبسم کاشمیری

ممتاز نقاد، محقق شاعر اور ادبی مورخ

تبسم کاشمیری کے تمام مواد

16 نظم (Nazm)

    اداسیوں کی رت

    اداسیوں کی رت بھی کیا عجیب ہے کوئی نہ میرے پاس ہے تم تو میرے پاس ہو مگر کہاں ہوا کی خوشبوؤں میں سبز روشنی کی دھول میں دل میں بجتی تالیوں کے پاس اداسیوں کے زرد بال جل اٹھے تھے اس گھڑی تمہاری سرد یاد کے سفید پھول کھل اٹھے تھے جس گھڑی نظر میں اک سفید برف گر رہی تھی دور تک سرخ بیلیں کھل ...

    مزید پڑھیے

    انکار کی سرحد پر

    اگر مجھ سے ملنا ہے آؤ ملو تم مگر یاد رکھنا میں اقرار کی منزلیں راستے ہی میں چھوڑ آیا ہوں اب مجھ سے ملنا ہے تم کو تو انکار کی سرحدوں پہ ملو جھینگروں مکڑیوں کے جنازے میں رستے پہ چھوڑ آیا ہوں پرانی کتھائیں مجھے کھینچتی ہیں زمیں کا زوال آج زنجیر پا بن رہا ہے خس و خاک کے سارے رشتے میں ...

    مزید پڑھیے

    ایک دھندلی یاد

    بارشیں اس کے بدن پر زور سے گرتی رہیں اور وہ بھیگی قبا میں دیر تک چلتی رہی سرخ تھا اس کا بدن اور سرخ تھی اس کی قبا سرخ تھی اس دم ہوا بارشوں میں جنگلوں کے درمیاں چلتے ہو بھیگتے چہرے کو یا اس کی قبا کو دیکھتے بانس کے گنجان رستوں پہ کبھی بڑھتے ہوئے اس کی بھیگی آنکھ میں کھلتی دھنک تکتے ...

    مزید پڑھیے

    ایک لمبی کافر لڑکی

    وادی کی سب سے لمبی لڑکی کے جسم کے سب مساموں سے ریشم سے زیادہ ملائم اور نرم خموشی میں گھنٹیوں کی آوازیں آ رہی تھیں برکھا کی اس نم زدہ رات میں جب اس کے جسم پہ قوس قزح چمکی تو گھنٹیاں تیز تیز بجنے لگیں مرے کانوں میں آہٹیں آ رہی تھیں دھند سے بھی نرم اور ملائم بادلوں کی دبے پاؤں ...

    مزید پڑھیے

    ندامت ہی ندامت

    رات کے معدے میں کاری زہر ہے جلتا ہے جس سے تن بدن میرا میں کب سے چیختا ہوں درد سے چلاتا پھرتا ہوں تشدد خوف دہشت بربریت اور مغلظ رات کی رانوں میں شہوت ایک کالا پھول بنتی ہے شہوت جاگتی ہے گھورتی ہے سرخ آنکھوں سے وہ چہرے نوچتی کھاتی ہے اپنے تند جبڑوں سے یہ کیسا زہر ہے جو پھیلتا جاتا ہے ...

    مزید پڑھیے

تمام